تحریر: بدر سرحدی
گزشتہ تین ماہ سے خرابئی صحت کی وجہ سے کچھ لکھنے سے قاصر رہا ،اب صحت اس قابل نہیں کے مسلسل بیٹھ سکوں اور لکھ سکو ں ،اخبار ضرور دیکھ لیتا ہوں میرے اعصاب پر نیب اور حکمران آمنے سامنے بری طرح سوار ہیں اور پھر آجکل تحفظ خواتین بل جس پر خصوصا مولانا فضل الرحمن نے شدید لفظوں میں تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت بنا نہیں سکتے مگر گرانا چاہیں تو کوئی روک نہیں سکتا…..،( عورت پرتشدد ،ونی ،کارو کاری اور غیرت کے نام قتل یہ ہماری روایات ہیں) ، اس کا جواب پنجاب حکومت کے ترجمان نے فوری دیا اقتدار عوام کے ووٹوں سے اللہ کی دین ہے ،مولانا سُن لیں اقتدار اللہ کی دین ہے اور گرانے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہے … .،ممتا ز حسین قادری کو سزائے موت تو ملک کی عدالتوں نے قانون رائج الوقت کے تحت دی حکومت نے تو اُس پر عمل کرایا حکومت کا کیا قصور ہے،لاکھوں کروڑوں لوگ اکٹھے ہو سکتے ہیں مگر ان مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں مل سکتے پھر ملک میں انتشار پھیلانے کا کیا مقصد…….، پھر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کا
کریڈٹ حکومت بڑے زور شور سے وصول کر رہی ،کہیں اخبار میں یہ خبر بھی دیکھی کہ ٢٠،ارب کی ریلیف عوام تک پہنچائیں گے،(اگر یہ بیس ارب چالیس ارب بھی ہوجائیں تو بھی ریلیف ممکن نہیں…. ..) وزیراعلےٰ شہباز شریف نے بھی کہا ہے پٹرولیم مصنوعات میں کمی عوام کے لئے تحفہ ہے( یہ تحفہ کیونکر اور کیسے یہ سوال اپنی جگہ ….؟) ریلیف جاری رہے گی،
صوبائی پرائس کنٹرول کمیٹی کو ہدائت کی کہ پٹرولیم مصنوعات میں کمی کے تناسب سے اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں کمی لانے کے اقدامات کئے جائیں تاکہ عوام کو ریلیف ملے ،اب سوال ہے ریلیف کا، ،مگر پہلی بات تو یہ کہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوںمیں جتنی کمی ہوئی ہے ،حکومت نے اُس تناسب سے یہا ں کمی نہیں کی اِس پر تبصرے جاری ہیں….البتہ حکومت نے ریلیف کا اپنا حصہ حاصل کر لیا ہے ،کیوں نا پٹرول ڈھائی روپئے گیلن اور دیزل ایک روپیہ پچیس پیسے کا گیلن ہو جائے یہ پیمانہ اور قیمت ساتویں دھائی میں، ،مگر اُس وقت اسمبلیوں میں شائد تاجر وصنعت کار نہیں تھے اور جو جا گیر دار تھے جو اُن کے کھیتوں کی پیداوار تھی اُسی پر شاکر تھے ایوب خان انگریز سے خطاب یافتہ جاگیردار تھے نہ ہی تاجر صنعتکار تھے،، اب دیکھنا ہے کیا کسی جنس خواہ تیل ہے یا گندم اپنی کوئی قیمت ہے تو اِس کا جواب نفی میں آئے گا کسی بھی چیز کی اپنی کوئی قیمت نہیں ،قیمت کا تعین جب دو ضرورتیں ملتی ہیں تو پھر قیمت پیدا ہوتی ،ایک خریدار اور دوسرا فروخت کنندہ،جب بیچنے والے کی ضرورت اور خریدار کی ضرورت آپس میں ٹکرائیں گی تو قیمت کا تعین ہوگا ،
تب گندم سترہ روپئے من تھی،جب بیچنے والوں کو اپنی اجناس کی اہمیت کا علم ہوأ تب اُس نے اپنی اجناس کو گودام میں رکھ کر مصنوعی قلت پیدا کی جب دیکھا کہ خریدار کی ضرورت بڑھ گئی تو قیمت میں اضافہ کر دیا اور اسی طرح یہ قیمت بڑہتے بڑہتے آج وہی گندم جو ساتویں دھائی میں سترہ روپئے من تھی آج چودہ سو اور پندرہ سو روپئے من ہے ، اب اگر کوئی کہے کہ قیمتیں کم ہونگی تو یہ خود کو دھوکا دیناہے ،ایک بات کہ اسمبلیوں میں تاجر سرمایہ دار،صنعت کاراورجاگیرداروں وڈیروں کی اکثریت ہے،اب تاجر جو مفاد حاصل کر چکا ہے یا حاصل کر رہا ہے اِن سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا ،اِسی طرح گندم کی جو قیمت وہ وصول کر رہا ہے اس میں اضافہ تو ہو سکتا کبھی کم نہیں کر سکتا،اگر تو گندم کی قیمت کم نہیں ہو سکتی تو یاد رکھیںکسی بھی جنس کی قیمت میں ایک روپئے کی بھی کمی نہیں ہوسکتی،بے شک پٹرول کی قیمت آج ٦٢ روپئے لیٹر یہ کیوں نا ،٦٢ پیسے لیٹر ہو جائے ،پرائیس کنٹرول کمیٹی ایک بے اختیار برائے نام ادارہ ہے،ماضی میں دسمبر میں دو چار روپئے من کا اضافہ ہوتا اور دیگر اجناس میں بھی اسی نسبت سے نامعلوم اضافہ ہوتا
پھر نئی فصل کے آتے ہی قیمتیں خود بخود واپس ہو جاتیں…مگر یہ تو سنار کی ٹک ٹک تھی، ٢٠٠٨،میں نئی اسمبلی کے جاگیر دار وزیر آعظم نے حلف لیتے ہی پہلا کا م جو کیا یہ ٹک ٹک ہوتی ہے ………تب انہوں نے قانونی طورپر ایک ہی لوہار کی ٹھک کی اور گندم کی قیمت میں ایک دم چھ سو روپئے من کا اضافہ کر دیااور پھر امدای قیمت کے بہانے سو سو روپئے کا اضافہ ہوتا رہا،اس اضافہ کے ساتھ ہر جنس کی قیمت میں اضافہ ہوتا گیا دو ہزار سات میں چینی انیس روپئے کلو اور پھر بڑہتے بڑہتے آج کہیں ساٹھاور ٦٥،کہیں ستر روپئے کلو اور آٹا چایس سے پنتالیس روپئے کلو ، اب یہ ریلیف یا قیمتوں میں کمی بہت بڑا جھوٹ…..،گو یہ تجویز ممکن نہیں مگر کہہ دینے میں کیا حرج ہے ،اگرحکومت عوام کو ریلیف دینے اور قیمتی کم کرنے میں واقعی سنجیدہ ہے تواسمبلیوں میں بیٹھے اور حکومت میں جو جاگیرادار زمیندار ہیں کو کہے وہ از خود گندم کی قیمت کم کرے وہ اس پر کبھی راضی نہیں ہونگے،
پھر جو سبسیڈی گند م کی قیمت میں یا زمیندار وں کو کھاد میں ،بجلی میں دجا رہی ہے وہ رو ک کر اور جو اب بیس ارب کی ریلیف کہا گیا سے گندم جہاں سے بھی سستی مل سکتی ہے در آمد کر ے، ( گو یہ بھی مشکل ہے کہ پاکستانی کرنسی شرمناک حد تک گر چکی ہے ،حاکم اعلےٰ پنجاب بعض دفع کہتے ہیں پائی پائی ،یا دھلے کی کرپپشن ،اب پچیس برس کے گریجویت نے نو پاکستان کا بنیادی سکہ پیسہ نہیں دیکھا ،روپیہ تک بے وقعت ہے،وہ پائی اور دھیلے کے بارے میں کیا جان سکتاہے…یہ ٦٢ روپئے ٧٧ پیسے کیا ہوتے ہیں ،نہ تو ایک لیٹر پٹرول خریدنے والے کے پاس دو روپے ستتر پیسے ہونگے اور نہ پمپ والے کے پاس بقایا ہونگے کہ یہ روپئے اور پیسے اپنی انفرادیت کھو چکے ہیں….. ) تو ضروریاتِ زندگی کی قیمتیں کم ہونگی،جاگیر دار اور اِس کے حمائتی شور مچائیں گے ، مگریہی اک فارمولا ہے قیمتیں کم کرنے کا باقی سب جھوٹ ہے جنہوں نے اپنے گوداموں میں سٹاک جمع کیا ہے وہ باہر لانے اور قیمتیں خود ہی کم کریں گے جس سے غریب عوام جسکی ضروریات زندگی کی بنیادی چیز فقط گندم ہے وہ خوش ہو گا اور ن لیگ کا ووٹ بنک نا صرف بڑھے گا بلکہ مستحکم بھی ہوگا
تحریر: بدر سرحدی