کسی بوڑھے نے ایک خوبصورت گوہر نامی نوعمر لڑکی سے شادی کر لی۔ موتیوں کی ڈبیہ کی طرح اس کو ہر کسی کی نگاہ سے چھپاتا۔ شادی کی رسم نبھانے کی خواہش رکھنے کے باوجود اس کے وجود میں جوانی کی تمام تر خصوصیات مدہم پڑ چکی تھیں۔ بڑھاپا ہر طرح سے غالب آ چکا تھا۔ دوستوں سے شکوہ کیا۔ “میرے گھر بار پر اس بے حیا نے جھاڑو پھیر دی ہے۔” نوبت میاں بیوی میں یہاں تک پہنچی کہ ہر وقت گھر میں فتنہ فساد رہتا۔ آخر کار جھگڑا بڑھتے بڑھتے قاضی کی عدالت میں جا پہنچا۔ قاضی نے معاملہ یوں نپٹایا۔ “اے بوڑھے جوان! ملامت اور برائی کرنے سے بس کر۔ لڑکی کی خطا نہیں ہے۔ تیرا ہاتھ کانپتا ہے تو تو موتی کیسے پرو سکتا ہے۔” حاصل کلام؛بڑھاپے میں جوان رعنا لڑکی سے شادی کرنا حماقت ہے شادی کرنا حماقت ہے اور باعث فتنہ و فساد ہے۔