تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس
ملک بھر میں ہونے والے قتل عام اور چن چن کے اس ملک سے قیمتی ترین لوگوں کو قتل کرنے والے دوسرے کئی گینگز کی طرح لیاری گینگ کا عذاب بھی کچھ کم تباہی پھیلانے کا سبب نہیں رہا. اسی کے سرغنہ عزیز بلوچ نے اپنی گرفتاری کا یقین ہونے پر ایسا مکارانہ کھیل کھیلا ہے کہ جس سے اس کیس کو اور اس کے مجرم ہونے کو جہاں تک ہو سکے اس قدر کمزور اور مشکوک کر دیا جائے کہ ہر سیاسی آدمی اپنی عزت بچانے کے لیئے اسے چھڑانے اور اپنا دامن بچانے کی فکر کرنے لگے . پیپلز پارٹی کا یہ پرانا کارندہ ایک ایسا اجرتی قاتل ہے جو باقاعدہ گروہ بنا کر معصوم شہریوں کو خود بھی لوٹتا رہا ہے اور سالہا سال تک ان سیاسی نمائندوں کو بھی پالتا رہا ہے . پھر طریقہ واردات کسی کا قتل ہو ،کھالوں کی لوٹ ہو ، صدقے فطرانے کے نام پر جگا ٹیکس ہو یا یا پھر اغواء برائے تاوان ،گو ہر طریقے سے اس نے اپنے مشن جاری رکھے۔
اس پر اس نے ہر ہر موقع پر ہر نامی گرامی شخصیت کیساتھ اپنی تصاویر بھی ان کے جانے انجانے میں یوں بنا کر انہیں ایسے ایسے مواقع پر پیش کیا کہ ہر آدمی ہی مشکوک ہو جائے اور ہماری عدالتیں جو پہلے ہی لولے لنگڑے فیصلے کرنے اور ایسے مجرموں کو آذاد کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہیں انہیں مذید عذر در عرض دے دیئے جائیں . کیونکہ ہماری عدالتیں سائیکل چور اور گاڑی کے چالان والوں کو تو سالہا سال لٹکا سکتی ہیں . لیکن قاتل چاہے ریمنڈ ڈیوس ہو ،شاہ ذیب ، یا کسی بھی نام سے ہو. اسی عدالت کی ناک کے نیچے سے وکٹری بناتا ہوا اس کی حرمت پر منہ چڑھاتا ہوا گزر جائے گا . کاش یہ رہائی ہماری عدالتوں میں معصوموں کے لیئے اتنی آسان ہوتی . لیکن یہ آسانی اور شکوک کے فائدے میسر بھی ہیں تو ایسے قاتلوں لٹیروں اور ڈاکوؤں کو۔
اس شخص نے نہ صرف ہر نامور شخصیت کیساتھ تصاویر بنائیں ان میں ہر طبقے کے لوگ شامل ہیں سیاستدان ہوں یا کھلاڑی، صحافی ہوں یا میڈیا والے . اس کے وار سے کوئی بچا ہوا نہیں ہے. اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے خلاف انکوائری میں اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ وہ کس شخص کیساتھ کس حد تک اور کس حوالے سے رابطے میں تھا ۔ وہ کون لوگ تھے. جو اس کے ایک ایک جرم پر پولیس سٹیشن فون کر کر کے اسے اور اس کے کارندوں کو نہ صرف چھڑایا کرتے تھے بلکہ انہیں ہر طرح کی سہولتیں اور پناہ گاہیں بھی فراہم کیا کرتے تھے۔۔
یہ کوئی معمولی آدمی نہیں ہے جس کا دماغ ایک وقت میں کہاں کہاں کس کس کو ٹپکاتا تھا، کبھی اڑاتا تھا اور کبھی غائب کرواتا تھا ، جس کی ہاتھوں نہ کسی کی عزت محفوظ تھی اور نہ ہی کسی کی جان اور مال ۔ ایسے لوگ ہمیشہ ہی سیاسی کارندے اور انکے خاص گلو بٹ رہے ہیں . ان کا ہر طبقے کے لوگوں میں کھڑے ہو کر، بیٹھ کر سیلفی بنوانا یا تصویر بنوانا کوئی بڑی بات نہیں . ہمارے ساتھ دائیں بائیں جانے کون کون ہمیں اپنے کیمرے میں قید کر رہا ہے. یہ ہم نہیں جان سکتے . لیکن ہاں جو لوگ ان کے ساتھ ان کے گھروں میں بیٹھے ہیں، ان کے ہاں دعوتوں اور شادی بیاہ میں شریک ہوتے رہے ہیں. تو ہاں دال میں کالا کیا کہیں پوری دال ہی تو کالی نہیں ؟؟؟؟؟؟۔
تحریر : ممتاز ملک۔ پیرس