پتہ نہیں میمونہ، بشریٰ اور زاہد بہار ہاشمی کیسے ہیں، جاوید ہاشمی کی آخری قلابازی نے پورے خاندان کو پیچھے دھکیل دیا۔ مسلم لیگ (ن) کی تازہ تنظیم نے کئی پرانے لوگ یاد کروا دئیے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ایک مشاہداللہ خان کو فراموش نہیں کیا گیا۔ بارہ اکتوبر 1999 کے بعد پہلا احتجاج اُنہوں ہی نے کیا تھا یا پھر شاہد خاقان عباسی کا پورا خیال کیا گیا ہے۔ فیصلہ پارٹی کے قائدین ہی نے کرنا ہوتا ہے اور جنوبی ایشیائی سیاست کی یہ خامی ہے کہ وہ افراد کے گرد گھومتی ہے۔ قائد کے سامنے نمبر بنانے والے آگے ہوجاتے ہیں اور قربانیاں دینے والے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والے جمہوریت آنے پر کچل دئیے جاتے ہیں۔ شاید حکومتوں کے تقاضے اور ہوتے ہیں، حکومتوں میں وفاداروں کو پیچھے کردیا جاتا ہے۔
بارہ اکتوبر کے بعد شریف خاندان پر برا وقت تھا، حالت یہ تھی کہ ابن الوقتوں کا پورا ہجوم اُنہیں چھوڑ گیا۔ بیگم کلثوم نواز اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اکثر چوہدری جعفر اقبال کے گھر آیا کرتی تھیں، اُس کی ایک وجہ بیگم عشرت اشرف تھیں، وہ جب پنڈی جایا کرتی تھیں تو نجمہ حمید ساتھ ہوتی تھیں۔ اب یہ سب لوگ پتہ نہیں کس حال میں ہیں، پنڈی کے چوہدری تنویر نے مشکل وقتوں میں جلسہ کروایا تھا، نئی تنظیم میں اُن کا پتہ نہیں کیا مقام ہے، سردار یعقوب ناصر پتہ نہیں کہاں کھڑے ہیں، فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے چوہدری صفدر الرحمٰن بڑے سرگرم ہوا کرتے تھے، اِسی طرح چوہدری خورشید زمان بھی پرجوش ہوا کرتے تھے، پنڈی کا ایک لڑکا بابر اعوان بہت سرگرم ہوا کرتا تھا، بعد میں وہ موت کی بانہوں میں چلا گیا۔ اسلام آباد میں سید ظفر علی شاہ نے ایک ہوٹل میں کنونشن کروانا چاہا تو مشرف کی طاقتور انتظامیہ نے تمام ہوٹلوں کو منع کردیا، ظفر علی شاہ کو مجبوراً یہ کنونشن اپنے گھر منتقل کرنا پڑا، وہی گھر جہاں اے آر ڈی بنی تھی، (ن)لیگ کے مشکل ترین دور میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے اُس کا ساتھ دیا۔ نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں مخدوم امین فہیم اور مخدوم جاوید ہاشمی اکٹھے بیٹھ گئے پھر جب اعتماد میں لئے بغیر (ن)لیگ کی قیادت مشرف کے ساتھ معاہدہ کرکے چلی گئی تو نوابزادہ نصراللہ یہ کہتے پائے گئے ’’پہلی مرتبہ کسی تاجر سے ہاتھ ملایا تھا، اب دیکھ رہا ہوں کہ ہاتھ بھی میرے ساتھ ہے یا نہیں‘‘۔ مشکلوں کے ساتھی ظفر علی شاہ کو وقت آنے پر نظر انداز کر دیا گیا۔ ملک شجاع الرحمٰن کا کچھ پتہ نہیں۔ پنڈی کے خٹک اور مرزا منصور بیگ کا بھی معلوم نہیں، ہاں اسلام آباد میں خواتین کا ایک بڑا کنونشن عشرت اشرف نے کروایا تھا، اُس میں نزہت عامر، طاہرہ اورنگزیب، تحسین فواد اور سیما جیلانی بڑی متحرک تھیں۔ ایک بزرگ چوہدری اصغر علی ہوا کرتے تھے، اُنہیں بھی وقت کے ساتھ پیچھے کردیا گیا۔ سندھ میں غوث علی شاہ قید کاٹتے رہے، اُنہیں چھوڑ کر قائدین ایسے گئے کہ مڑ کر خبر ہی نہ لی۔ مشکل وقتوں میں ساتھ نبھانے والے امداد چانڈیو وقت آنے پر منظر سے غائب تھے۔ لاہور کے خواجہ سعد رفیق، پرویز ملک، زعیم قادری اور رائیونڈ کے چوہدری عبدالغفور کی بھی وہ قدر نہ کی گئی جس کے وہ مستحق تھے۔ وہاڑی کی تہمینہ دولتانہ ہر مشکل مرحلے میں ساتھ تھیں جب حکمرانی کا وقت آیا تو کہیں سے انوشے رحمٰن نازل ہوگئیں۔ عابد شیر علی اور رانا محمود الحسن بڑے جوشیلے ہوا کرتے تھے۔ جہلم کے راجہ افضل اور اُن کے بیٹے مشکلات کے ساتھی تھے۔ پشاور کا نوجوان علی یوسفزئی بڑا سرگرم ہوتا تھا، اپنے پیارے سرانجام زمیندار استقامت سے کھڑے رہے، وہ چاہتے تو پوری پارٹی غائب ہو سکتی تھی، وہ پارٹی کے سیکرٹری جنرل تھے، اُن پر بڑا پریشر تھا مگر اُنہوں نے جھکنے سے انکار کردیا، عبدالسبحان خان کی جوشیلی پشتو تقریریں کون بھول سکتا ہے۔ اُس مشکل ترین دور میں اقبال ظفر جھگڑا، پیر صابر شاہ اور سردار مہتاب نے بہت مشکلات کا سامنا کیا اور پھر (ن)لیگ کی جادو گری اُن پر امیر مقام لے ا ٓئی، جس وقت (ن)لیگ نے 146 ٹکٹ (ق) لیگ کے لوگوں کو دئیے تھے، وفائوں کی قدر و قیمت کا بھرم اُسی دن کھل گیا تھا مگر لوگ پھر بھی کھڑے رہے۔ اپنے انجم عقیل خان ہر مشکل میں ساتھ رہے مگر پھر اُن جیسوں کو بھلا دیا گیا۔
برے وقت میں انسان کو کیا کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ طاقت بیگم کلثوم نواز کو اسلام آباد میں کرائے پر گھر بھی نہیں لینے دیتی تھی، بڑی مشکلوں سے ایک گھر ملا جس کا مالک بیرون ملک رہتا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جن صحافیوں کو میاں صاحب قریب سمجھتے تھے، اُن میں سے اکثر دور ہوگئے تھے۔ ایک روز بیگم کلثوم نواز نے بڑے دکھ سے ایک واقعہ سنایا، کہنے لگیں ’’ایک آدمی کا ہم نے بہت خیال کیا تھا، اب جب میں نے اُسے فون کیا تو اُس نے کہا یہ رانگ نمبر ہے حالانکہ میں اُس کی آواز پہچانتی ہوں مگر شاید برے وقت میں ایسے ہی ہوتا ہے‘‘۔ مردان کی ایک خاتون شازیہ اورنگزیب بھی بڑی جدوجہد کرتی تھیں، وہ خیبر پختونخوا کے جلسوں میں عورتوں کو لایا کرتی تھیں۔
(ن) لیگ کے اِس برے وقت میں ملک کے اندر کئی لوگوں نے قربانیاں دیں اور کئی ایسے افراد بھی برے وقت میں بہت کام آئے جو ملک سے باہر رہتے تھے یا اُن کا بزنس ملک سے باہر تھا۔ ایک صاحب حامد میر تھے، ملک نور حسین تھے پھر لندن میں زبیر گل اور ناصر بٹ مگر پھر زبیر گل کے ساتھ اچھے وقتوں میں دھوکہ ہوگیا۔ برے وقت میں پارٹی پر کون پیسے لگاتا تھا، یہ کہانی میرے سامنے اُس وقت آئی جب میں نے کسی سے پوچھا تو اُس نے بتایا ’’مسلم لیگ ہائوس کا کرایہ اور ملازمین کی تنخواہیں جاپان والے شیخ قیصر محمود ادا کرتے ہیں، وہی شیخ قیصر محمود جس کو پرویز مشرف سینیٹر شپ کی پیشکش کرتے تھے، وہی شیخ قیصر محمود جس کی گوادر میں سینکڑوں ایکڑ اراضی متنازع بنادی گئی، وہ نہ ہوتے تو پارٹی ختم ہوجاتی‘‘۔
بہت افسوس سے لکھنا پڑرہا ہے کہ (ن)لیگ کا نیا ورق تیار کرنے والوں نے پرانا ورق نہیں دیکھا، قربانیاں دینے والے آج بھی خاموش ہیں، اُنہیں دیکھ کر ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر یاد آتا ہے کہ؎
ہر جبر سے خاموش گزر آئے کہ افسوس
جاں بھی ہمیں درکار تھی عزت کے علاوہ