انصاف کا حصول ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ قدیم ہندوستان میں انصاف کے لیے عدالتیں قائم تھیں جوفوری طور پر انصاف فراہم کرتی تھیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں جدید عدالتی نظام کی بنیاد رکھی گئی، لارڈ میکالے اس نظام کے موجد تھے۔اس نظام میں دستاویزات اور شہادتوں پر زور دیا گیا۔ابتدائی دنوں میں اس جدید عدالتی نظام نے انصاف کی فراہمی کو آسان کردیا مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ نظام پیچیدہ ہوتا چلاگیا۔ وفاقی حکومت نے عدالتی نظام کے بوجھ کوکم کرنے اور فوری انصاف کی فراہمی کے لیے 1983 میں محتسب کا ادارہ قائم کیا اور پھر صوبوں نے بھی ایسے ہی ادارے قائم کیے۔
جب وفاقی حکومت نے 2002میں اطلاعات کے حصول کا قانون نافذ کیا تو اس قانون کے تحت متعلقہ وزارت سے اطلاعات فراہم نہ کرنے پر وفاقی محتسب سے اپیل کا حق دیا گیا۔وفاقی محتسب سلمان فاروقی نے درخواستوں کو نمٹانے کے لیے جدید طریقہ کار اختیار کیا، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال محتسب نے 94 ہزار درخواستوں پر فیصلے کیے، یعنی روزانہ اوسطاً 310 درخواستیں داخل دفتر ہوئیں۔ وفاقی محتسب نے گزشتہ سال قومی اسمبلی کے اسپیکر کو حکم دیا کہ اراکین قومی اسمبلی کی قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی حاضری کو ویب سائٹ پر ظاہر کیا جائے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اراکین کی حاضری ظاہر کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ انھوں نے وفاقی محتسب کے فیصلے کے خلاف صدر پاکستان سے اپیل کی تھی۔
وفاقی محتسب نے جیل اور پولیس اصلاحات کے فیصلوں کی سپریم کورٹ نے تعریف کی۔ وفاقی محتسب کے آزادانہ فیصلے وفاقی حکومت کو پسند نہیں آئے۔ حکومت نے محتسب کے اختیارات میں کمی کے لیے قانون کا مسودہ تیارکرلیا۔ یہ مسودہ قومی اسمبلی کے آیندہ اجلاس کے ایجنڈا میں شامل کیا جائے گا۔ ا س مسودہ قانون کے تحت وفاقی محتسب کی غیر موجودگی میں محتسب ٹیکس کے وفاقی محتسب کا عہدہ سنبھالنے پر پابندی عائد ہوجائے گی۔ اسی طرح محتسب کو دیگر شہروں میں اپنے دفاتر قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وفاقی محتسب کی عدم موجودگی میں محتسب ٹیکس کے عہدہ نہ سنبھالنے کی بناء پر وفاقی محتسب کا ادارہ معطل ہوجائے گا۔
2007میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کو سابق صدر پرویزمشرف نے ان کے عہدے سے ہٹایا اور جسٹس افتخار چوہدری کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس بھیجا تو وکلاء نے جنرل پرویز مشرف حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا۔ وکلاء رہنماؤں کا کہنا تھا کہ جسٹس افتخار چوہدری عدلیہ کی آزادی کی نگہبانی کررہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف جو اس وقت لندن میں مقیم تھے نے افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کا اعلان کیا۔
جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کے لیے وکلاء نے 7 مہینے سے زائد عرصے تک تحریک چلائی۔ جسٹس افتخار چوہدری نے اس تحریک کو عدلیہ کی آزادی اور عوام کے لیے انصاف آسان اور سستا ہونے کا نام دیا۔ یہی وجہ تھی کہ وکلاء کے علاوہ صحافیوں، دانشوروں، مزدوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس تحریک کے لیے قربانیاں دیں۔ جسٹس چوہدری، حامد خان، رشید اے رضوی، اعتزاز احسن اور منیر ملک وغیرہ نے شہریوں کے لیے انصاف کی فراہمی آسان کرنے کے نعرے لگائے۔ میاں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں نے بھی وکلاء رہنماؤں کی ہمنوائی کی۔
2008میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن انتخابات میں کامیاب ہوئی اور آصف علی زرداری نے ملک کی صدارت سنبھالی تو پیپلز پارٹی نے جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کرنے سے انکارکردیا۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ہر وعدہ قرآن و حدیث نہیں ہوتا، یوں وہ افتخار چوہدری کی بحالی سے مکرگئے۔ میاں نواز شریف نے افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک کی قیادت سنبھالی۔ عوام و وکلاء اس تحریک میں قریب آگئے اور ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے ۔ افتخار چوہدری نے عدالتی نظام کو بہتر بنانے کا جو نعرہ دیا اس نعرے کی بنیاد پر پورا ملک ان کی حمایت میں گھروںسے نکل آیا۔سیاسی جماعتوں، مزدوروں، کسانوں، دانشوروں اور خواتین تنظیموں نے وکلاء کی عدلیہ بحالی کی تحریک کی حمایت کی۔ پہلی دفعہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس اور جج صاحبان جسٹس چوہدری کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے معتوب ہوئے۔
جسٹس افتخار چوہدری نے عدالتی نظام کے آسان اور سستا کرنے کا نعرہ لگایا۔ عوام نے اس کی بناء پر اس تحریک کی حمایت کی۔ وزیراعظم نواز شریف جسٹس افتخار چوہدری اور ان کے ساتھیوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ پر مجبور ہوئے مگر جسٹس افتخار چوہدری اپنے عہدے پر بحال ہونے کے بعد وزیراعظم برطرف کرو تحریک کی قیادت میں مصروف ہوگئے۔ یوں جسٹس افتخار چوہدری کی مایوس کن کارکردگی سے عام آدمی کا عوامی تحریک پر سے اعتماد ختم ہوگیا۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں نے سستا اور آسان عدالتی نظام کی بحالی کے لیے کچھ نہیں کیا۔ آج کل کراچی، کوئٹہ، لاہور اور پشاور میں محتسب کے ذیلی دفاتر موجود ہیں۔ چاروں صوبوں کے دور دراز کے علاقوں سے عام آدمی کا صوبائی دارالحکومت سے رابطہ کرنا خاصا مشکل ہوتا ہے۔ ان لوگوں کے لیے اسلام آباد پہنچنا تو مزید مشکل ہوجائے گی، یوں وفاقی محتسب کے ادارے کے قیام کا مقصد فوت ہوجائے گا۔
وفاقی محتسب سلمان فاروقی جو سینئر بیوروکریٹ ہیں ان کی زندگی کا آغاز نچلی سطح سے ہوا تھا اسی بناء پر انھوں نے یونین کونسل کی سطح پر محتسب کے دفاتر کھولنے کا منصوبہ بنایا۔ اس فیصلے کی بناء پر عام آدمی کو اپنے گھر کے نزدیک انصاف مل سکتا تھا۔ وفاقی حکومت کو سلمان فاروقی کی اس تجویزکا خیرمقدم کرنا چاہیے تھا مگر وفاقی حکومت محتسب کے اختیارات پر پابندی عائد کررہی ہے۔ یورپی ممالک نے محتسب کے ادارے کے ذریعے عام آدمی کو انصاف دلایا ہے، یوں عام آدمی کو با آسانی انصاف مل سکتا ہے۔