نفیس صدیقی
اس کالم کی اشاعت تک پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں نکالی جانے والی ریلی خیریت سے اختتام پذیر ہو چکی ہو گی۔ سانحہ کارساز کو یاد رکھنا بہت ضروری ہے۔ 18اکتوبر 2007ءکو کراچی میں رونما ہونے والا سانحہ کارساز پاکستان کی سیاسی تاریخ کا بہت بڑا سانحہ ہے، جسے کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے عوام نے جمہوریت کی بحالی اور آئین و قانون کی حکمرانی کیلئے بہت قربانیاں دی ہیں لیکن 18اکتوبر کو عوام دشمن قوتوں نے ظلم کی سیاہ تاریخ رقم کی۔ یہ وہ دن ہے، جب پاکستان کی تاریخ دو حصوں میں بٹ گئی اور دو مختلف دھاروں میں چلنے لگی۔ عوامی طاقت کے تاریخی مظاہرے کو تاریخ کی بدترین بربریت کے ذریعے منتشر کیا گیا۔ ایک طرف عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، جو ملک کو جمہوری اور مہذب انداز میں چلانے کا مطالبہ کر رہے تھے اور دوسری طرف ان قوتوں نے عوام پر حملہ کیا، جو ملک پر بندوق اور طاقت کا ضابطہ نافذ کرنا چاہتی تھیں۔ 18 اکتوبر کو عوام کے جم غفیر کو بم دھماکوں اور اندھا دھند فائرنگ سے منتشر تو کر دیا گیا جس کا نتیجہ پاکستان میں نہ ختم ہونے والے انتشار کی صورت میں موجود ہے۔
پاکستان کی جمہوری تحریکوں میں زمانہ طالب علمی سے ہی میں سرگرمی سے حصہ لے رہا ہوں۔ ہر جمہوری تحریک میں عوام اور سیاسی قوتوں کی شرکت اور ہر تحریک کے اثرات کا بھی سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے جائزہ لیتا رہا ہوں۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک ساری جمہوری تحریکوں کا عینی شاہد ہوں۔ بڑے بڑے جلسے اور جلوس بھی دیکھے لیکن محترمہ بے نظیر بھٹو نے جس دور میں جمہوریت کی بحالی کیلئے جدوجہد کی، وہ دور پاکستان کی تاریخ کا انتہائی خطرناک دور تھا۔ 20 ویں صدی کے آغاز سے ہی تاریخ نے بڑے بڑے انسانی اجتماعات کا نظارہ کیا۔ انقلابات اور جمہوری تحریکوں کا یہ عہد 8 عشروں تک چلا۔ اس کے بعد دنیا خصوصاً تیسری دنیا میں عوامی اجتماع منعقد کرنا یا عوامی تحریکوں کے ذریعے آمرانہ حکومتوں کیخلاف جدوجہد کرنا انتہائی خطرناک بن گیا کیونکہ نیو ورلڈ آرڈر کے نفاذ کے بعد عوامی طاقت کو روکنے کیلئے غیر ریاستی یا دہشت گرد عناصر سامنے آ گئے۔ یہی وہ خطرناک دور ہے، جس میں محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے جمہوری تحریک چلائی اور وادی سندھ کی تاریخ کے بے مثال عوامی اجتماعات منعقد کئے۔ 10اپریل 1986ء کو جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں تو لاہور میں انسانوں کا سمندر امڈ آیا تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع تھا اور عوامی طاقت کا یہ مظاہرہ اس وقت کیا گیا، جب دنیا میں نیو ورلڈ آرڈر نافذ ہو چکا تھا، جمہوری تحریکیں کمزور ہو چکی تھیں اور غیر ریاستی یا دہشت گرد عناصر کا عالمی سیاست میں کردار بڑھ گیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق امریکہ اور اس کی حواری عالمی طاقتوں کے انتہائی منظور نظر تھے کیونکہ مغرب میں انہیں ایک ایسے ’’مرد آہن‘‘ کی طرح پیش کیا جا رہا تھا، جس نے سوویت یونین کا شیرازہ بکھیر دیا تھا اور اشتراکی بلاک کو غیر موثر بنا دیا تھا۔ نیو ورلڈ آرڈر کیلئے راہ ہموار کرنے والے ’’ہیروز‘‘ میں جنرل ضیاء الحق کا شمار ہوتا تھا۔ اس انتہائی خطرناک دور میں عالمی طاقتوں کے انتہائی منظور نظر حکمران کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے للکارا اور ان کے استقبال کیلئے لاہور میں عوام جس طرح جمع ہوئے، اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو اس عہد کی مقبول ترین لیڈر تھیں، جس عہد میں مقبول لیڈرز پیدا ہونے بند ہو گئے تھے اور پاکستان کے عوام اس عہد میں جمہوریت کیلئے جدوجہد جاری رکھے ہوئے تھے، جس عہد میں تیسری دنیا کے عوام پر تھکن طاری تھی۔
21 سال بعد محترمہ بے نظیر بھٹو ایک اور آمر سے نبرد آزما ہوئیں۔ یہ دور 1986 ء کے مقابلے میں اور زیادہ خطرناک ہو گیا تھا اور غیر ریاستی عناصر یعنی دہشت گرد تنظیمیں نیو ورلڈ آرڈر کو مکمل طور پر مضبوط کر چکی تھیں اور دنیا ایک ایسے خطرناک ضابطے میں آ گئی تھی، جس سے بغاوت کرنے یا نکلنے کی اب تک کوئی واضح امید پیدا نہیں ہوئی ہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو 18 اکتوبر 2007 کو جب کراچی ایئرپورٹ پر اتریں تو 10 اپریل 1986 ء کے مقابلے میں زیادہ لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ عوام کا یہ جم غفیر 21 سال پہلے والے اجتماع سے بہت بڑا تھا حالانکہ اس دور میں دنیا بھر میں عوامی تحریکیں تقریباً معدوم ہو چکی تھیں اور عالمی طاقتیں تیسری دنیا میں خاص طور پر سارے فیصلے دہشت گردی کے تناظر میں کر رہی تھیں۔ پرویز مشرف امریکہ اور اس کے حواریوں کے ضیاء الحق کے مقابلے میں زیادہ منظور نظر تھے اور ان کے خلاف عوامی اجتماع جنرل ضیاء الحق کے خلاف اجتماع سے اور زیادہ بڑا تھا۔ 18 اکتوبر نے یہ بھی ثابت کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو تیسری دنیا خاص طور پر اسلامی دنیا کی واحد مقبول ترین لیڈر ہیں اور وہ عالم اسلام کو درپیش بحرانوں سے نکالنے کی واحد امید ہیں۔ یہ فیصلہ کن اجتماع تھا۔ تاریخ نے 18 اکتوبر کو فیصلہ لکھ دیا تھا۔ عوام دشمن قوتوں نے اس فیصلے کو بدلنے کیلئے تاریخ کی بدترین بربریت اور وحشت کا مظاہرہ کیا۔ 10 اپریل 1986 والے عوامی اجتماع کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیاء الحق کا طیارہ ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ کوئی یہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس وقت کے علاقائی اور عالمی حالات میں ضیاء الحق کے اقتدار کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔ کچھ قوتوں نے یہ سوچا ہو گا کہ 18 اکتوبر کا نتیجہ تبدیل کیا جائے۔ تقریباً 200 جمہوری کارکن اس دن شہید ہوئے اور 500سے زائد زخمی ہوئے۔ بے گناہ انسانوں کے خون سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے بقول ان کی کتاب کا وہ مسودہ بھی علامتی طور پر خون آلود ہو گیا، جس میں پاکستان سمیت عالم اسلام کو درپیش بحرانوں کا حل موجود تھا اور جس میں دنیا کو پر امن بنانے کیلئے ایک فکر انگیز مباحثے کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود 18 اکتوبر کو ہی پرویز مشرف کا جانا لکھ دیا گیا تھا۔ یہ بھی ایک ناقابل تصور تاریخی فیصلہ تھا۔
بلاول بھٹو زرداری نے سانحہ کارساز کے شہداء کی یاد میں جس عظیم الشان ’’سلام شہداء ریلی‘‘ کی قیادت کی، وہ تاریخ کے سفر کو آگے بڑھانے کیلئے مدد گار ثابت ہو گی اور یقیناً وہ وقت ضرور آئیگا، جب 18اکتوبر کو دو دھاروں میں چلنے والی پاکستان کی سیاسی تاریخ ایک دھارے میں چلے گی اور ملک میں جمہوریت، امن اور خوش حالی کا ایک نیا دور شروع ہو گا۔ بلاول بھٹو زرداری کی اس ریلی سے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کو متحرک کرنے اور پاکستان کی سیاست میں جمود کو توڑنے میں بھی مدد ملے گی۔