لاہور (ویب ڈیسک) لگتا تو یہ ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کو ملک سے باہر بھیجنا کچھ حلقوں کی مجبوری بن چکا ہے ورنہ نواز شریف باہر جانے پر رضامند نہیں۔ میاں نواز شریف بخوبی جانتے ہیں کہ زندگی اور موت کا ایک دن معین ہے اور موت کو لندن امریکہ کا علاج بھی نہیں ٹال سکتا۔
نامور خاتون کالم نگار طیبہ ضیاء چیمہ اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ان کی بیگم کلثوم نواز کو بھی لندن کا علاج نہ بچا سکا اور میت کی صورت میں وطن لوٹنا پڑا۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ اقتدار کا نشہ چکھ چکے ہیں اور اب عمر کے اس حصے میں داخل ہو چکے ہیں جب زندگی بچانے سے زیادہ اپنی پارٹی سیاست اور آخری امیج بچانے کی فکر ہوتی ہے۔ بیٹی کا سیاسی مستقبل باپ کے دلیرانہ فیصلوں پر منحصر ہے، ایسے میں نواز شریف ملک میں رہ کر علاج کے حامی ہیں مگر حکومت جس کا ووٹ بینک ہی اینٹی نواز تھا ، نواز شریف ہی اب ان کی راہ میں رکاوٹ بن چکا ہے۔ جب سے جیل بھیجا ہے میڈیا اور سیاست کی تمام توجہ باپ بیٹی پر مرکوز ہو کر رہ گئی ہے۔ بیمار ہوتے ہیں تو ہمدردیاں اور جان سے جائیں تو حالات بے قابو لہٰذا ان سے جان چھڑا لینا ہی بہتر لگا۔ اُوپر سے بیماری لگ گئی۔ اس پر بھی شبہات جنم لے چکے ہیں کہ عوام سے آج تک اتنے جھوٹ بولے جا چکے ہیں کہ سچ بھی جھوٹ لگنے لگا ہے۔ نواز شریف کو ملک بدر ، جلا وطن جو بھی نام لیا جائے کرنے کا جب فیصلہ کر لیا گیا ہے تو بیماری کو سچ تسلیم کرنا ہوگا۔ نواز شریف کے لئے ان حالات میں ملک چھوڑنا دانائی نہیں۔ یقیناً علاج کو جواز بنا کر بیرون ملک بھیجنا نواز شریف کی خواہش نہیں ہو سکتی۔ البتہ کچھ حلقوں کی مجبوری ضرور ہے۔
باپ بیٹی کے بعد آصف زرداری بھی باہر بھیج دئیے جائیں گے۔ نواز شریف کے باہر جانے کی صورت میں حکومتی پارٹی سبکی چھپانے کے لئے مسلم لیگ ن کو لیڈر کے باہر بھاگ جانے کا طعنہ دیتی رہے گی اور مسلم لیگ ن ‘‘ مر جائوں گا لیکن کسی کو چھوڑوں گا نہیں ‘‘جیسے حکومتی ‘‘اقوال زریں ‘‘ دہراتی رہے گی۔’’مر جائوں گا مگر چوروں کو نہیں چھوڑوں گا ’’خان صاحب قوم کو بتائیں کہ چور چھوڑنے کے عوض کتنی رقم کس بینک اورکن ذرائع سے موصول ہوئی ؟کوئی 20 کہتا ہے کوئی 18 کوئی 16 کوئی 14 کوئی 12 کوئی 8 کوئی بلین کہتا ہے کوئی ملین کہتا ہے۔ پہلے ایک رقم پر اتفاق کر لو جو نواز شریف نے بیماری کے عوض دی پھر قوم کو بے وقوف بنانا۔ باوثوق ذرائع کے مطابق نواز شریف بیماری کے سبب جا رہے ہیں۔ ایک روپیہ بھی ادا نہیں کیا۔ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے۔ اربوں ڈالروں کی ادائیگی میں حقیقت ہوتی تو عمران خان سینہ ٹھوک کر اعلان کرتے۔ باپ بیٹی کو چھوڑنے کی بات ہو تو عاشقان خان کہتے ہیں عدالت نے چھوڑا ہے خان نے نہیں جبکہ خان صاحب بڑھکیں لگاتے ہیں کہ چور ٹبر کو مرتے دم تک نہیں چھوڑوں گا، تب موصوف جج بن جاتے ہیں؟ ملک میں عجیب تماشے لگے ہوئے ہیں۔ ایک طرف مولانا فضل الرحمن اپوزیشن لیڈری چمکا رہے ہیں۔ دوسری طرف حکمران پارٹی سکھوں کی آشیرباد سے نہال ہوئے جا رہی ہے۔ اپوزیشن جماعتوں اور حکومتی پارٹی میں بھی اتنی الفت پیدا ہو جائے جتنی آجکل حکومت کی سکھوں
کے لئے محبت جوش مار رہی ہے تو سیاسی مسائل فتنہ بننے سے بچ جائیں۔ مقبوضہ کشمیر پس پشت ڈال دیا گیا۔ پاکستان کے حکمران کبھی سنجیدہ فیصلہ نہیں لے سکے البتہ بھارت کو اخلاق کی مار ہی مارتے رہے۔سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے کہا تھاکہ ‘‘جس رب کو بھارتی پوجتے ہیں ہم بھی اْسی رب کو پوجتے ہیں۔ اب دونوں ممالک بھارت اور پاکستان کو کشمیر پر اپنے سابقہ موقف سے باہر نکل آنا چاہئے۔ پاکستان اور بھارت کی زبان اور ثقافت ایک جیسی ہے صرف سرحد درمیان میں ہے’’ موجودہ وزیر عظم عمران خان نے بھی متعدد مرتبہ دہرایا کہ ‘‘کرتارپور سکھ برادری کے لئے مکہ و مدینہ کی حیثیت رکھتا ہے ‘‘ خدا نے پاکستان کو کیسے کیسے حاکم عطا کئے کہ جن کی برکات سے بھارت پاکستانیوں کے دل و دماغ اور ثقافت پر ہی نہیں بلکہ جموں کشمیر پر بھی قابض ہو چکا ہے۔ غیر مسلم مقامات کا احترام اپنی جگہ لیکن ان کے کسی مذہبی مقام کو مکہ و مدینہ پاک سے تشبیہ دینا کہاں کی دانشوری ہے؟ مسلم مقدس مقامات کو سیاسی چاپلوسی کے لئے استعمال کرنا مذہبی کارڈ تو ہے ہی،گستاخی بھی ہے۔ کرتار پور راہداری کھول کر مسلم ریاست نے اخلاقی اقدار کا ثبوت دیا۔ مودی نے بھی شکریہ ادا کر دیا اور دنیا میں بھی واہ واہ ہوگئی۔کشمیر کے اس حساس موقع پر کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑک کر پاکستانیوں کو کتنی خوشی محسوس ہو سکتی ہے ؟ بہت بڑا معرکہ انجام دیا ہے اب کچھ توجہ پاکستان کی معاشی بد حالی کی جانب بھی ہو جائے۔ پاکستان کے غریب سفید پوش تو درکنار کھاتے پیتے عوام بھی مہنگائی کے ہاتھوں تڑپ اُٹھے ہیں۔ نواز شریف کو باہر بھیجنے سے اگر حکومت کی رکاوٹیں دور ہو سکتی ہیں تو بسم اللہ کریں لیکن جانے اور بھیجنے میں فرق ہوتا ہے۔ایک پائی بھی نہ نکلوا سکے اُلٹا سبکی الگ سے۔