پشاور (ویب ڈیسک) 16 دسمبر کو پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملے کی برسی منائی گئی اور اس موقع پر پاک فوج نے ایک ترانہ بھی جاری کیا جبکہ پاکستان کے سویلین و عسکری حکام نے متاثرہ فیملیز کیساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دہشتگردی سے نمٹنے کیلئے ریاست کی طرف سے عزم دہرایا اورایسے میں شہدا کے والدین نے بھی اپنے بچوں کی داستانیں سنا کر اپنا غم ہلکا کرنے کی کوشش کی ۔ آرمی پبلک سکول پر دہشتگردوں کے حملے میں شہید ہونیوالے نوراللہ کی والدہ نے بتایاکہ نور اللہ ہنس مکھ تھا لیکن ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا، حملے سے کچھ روز پہلے طبیعت خراب ہونے پر پشاور میں ہی ایک ڈاکٹر کے پاس گئے تو ایک انجیکشن کا درد سہہ نہیں سکا اور اس نے ہسپتال ہی سرپر اٹھا لیا تھا۔ والدہ نے بتایاکہ دہشتگردوں کے حملے کے بعد جب شہید کا جسد خاکی دیکھا تو برداشت نہیں کر پائیں۔ آج نیوز کے مطابق شہید کی والدہ نے اشکبار آنکھوں کیساتھ بتایا کہ زخم آج بھی تازہ ہیں، بیٹے کو بہت بے دردی سے مارا گیا تھا اور ایک مرتبہ پھر ان کیلئے آنسو روکنا ناممکن ہوگیا یہاں تک کہ گال بھی آنسووں سے بھیگ گئے ۔ انہوں نے بتایاکہ شہید کا سینہ گولیوں سے چھلنی تھا یہاں تک کہ جرسی بھی ادھڑ گئی تھی، دونوں بازو کندھوں سے ٹوٹ چکے تھے اور جسم پر جگہ جگہ خون خون کے دھبے تھے اور وہ یہ سوچ رہی تھی کہ نہ جانے ان کے بچے پر کیا گزری ہوگی، جب اتنی گولیاں لگی ہوں گی اس وقت ان کے بیٹے کا کیا حال ہوا ہو گا۔