لاہور (ویب ڈیسک) دراصل ہماری اس معاشرتی خرابی کا آغاز 1980ء سے اُس وقت شروع ہوا جب جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے پاکستانی تارکینِ وطن کو اپنے ہمراہ 10,000 روپے مالیت تک کی امپورٹڈ اشیاء لانے کی اِجازت دی۔ اس سہولت کی آڑ میں بدعنوان کسٹم ملازمین نے فرج، ائیرکنڈیشنرز، کے لوازمات ، نامور مضمون نگار منظور احمد اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بریف کیس اور گراں قدر الیکٹرونک کاسامان اندرونِ مُلک سے کھُلم کھُلا آنے دیا۔ اگر آپ کو یاد ہو اُس وقت ہماری مقامی الیکٹرونک کی صنعت Take off پوائنٹ پر تھی۔ آر جی اے کاٹیلی ویژن ہر گھر میں نظر آتاتھا۔ گوجرانوالہ کی کمپنی کا بنایا ہوا ائیر کنڈیشنر اور کراچی ساختہ فرج’’شہاب‘‘ کے نام سے بِک رہا تھا۔ مقامی طور پر ساختہ اَٹاچی کیس ، بریف کیس اور ڈینم کپڑے کی جینز فروخت ہو رہے تھے،بلکہ Jeans کے ایک اشتہار میں عمران خان (اب وزیراعظم) بطور ماڈل بھی نظر آئے تھے۔ پتہ نہیں جنرل ضیاء کی رعائت برائے پاکستانی تارکینِ وطن نیک نیتی پر مبنی ہو، لیکن اس رعائت نے ہماری مقامی صنعتوں کو کچل کر رکھ دیا۔ نہ RGA اور NEC ٹیلی ویژن رہے، نہ گوجرانوالہ اور کراچی کے ائیرکنڈشینرزاور فرج رہے۔ ہمارا معاشرہ تارکینِ وطن کو دی ہوئی سہولت کی وجہ سے Consumer معاشرہ بن گیا۔ مقامی ساختہ اشیاء اپنی شکل و صورت اور میں امپورٹڈ سامان کا مقابلہ ابھی نہیں کر سکتی تھیں۔ آہستہ آہستہ ہماری صنعت بیٹھتی چلی گئی۔یہ حالت 2005ء تک رہی، یعنی 25 سال میں ہماری نوخیز الیکٹرونک اور دوسری مصنوعات کی صنعتیں بند ہو گئیں۔ پیٹرو ڈالر سے حاصل شدہ عارضی خوشحالی نے بیرونِ ملک پاکستانیوں کو ’’خرچیلا‘‘بنا دیا۔ اَندونِ ملک ’’جہادی ڈالروں‘‘ نے دولت کی ریل پیل کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس دولت سے حاصل شدہ عیش وعشرت کی خواہش ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں پیدا ہو گئی۔اس قدر دولت کی فراوانی میں حکومت کو ٹیکسوں کی صورت میں ’’ٹھینگا‘‘بھی نہ مِلا البتہ دولت کو خرچ کرنے کے لئے عالیشان کالونیاں بن گئیں۔ کراچی ،لاہور، اسلام آباد فیصل آباد میں جہازی سائز کی شاپنگ مالز بن گئیں۔پانچ ستاروں والے ریسٹورنٹ بن گئے، عمروں اور حج کی تعداد ہر سال بڑھنے لگی۔ اِن تمام کاموں کے لئے ’’روکڑا‘‘ درکار تھا،جس کے حصول کے لئے نہ قانون کی پروا کی گئی نہ اخلاقیات کی۔ جلد امیر ہونے کے جنون نے ہمارے معاشرے کو چھوٹے بڑے جرائم کی آماج گاہ بنا دیا ہے۔مَیں یہ اپنی تحقیق اور تجربے کی بنا پر لکھ رہا ہوں کہ آج کے اچھے خاصے گھرانوں کی اکثر پڑھی لکھی لڑکیاں امیر بڈھوں سے شادی کرنے کی خواہشمند ہوتی ہیں تاکہ اگر بڈھا جلد مر جائے تو اُس کے چھوڑے ہوئے اَثاثے اور روپے سے بقیہ زندگی عیش و عشرت میں گزرے۔ پاکستان میں کون سا طبقہ رہ گیا ہے۔