البرٹ آئن سٹائن 1922 میں جاپان کے دورے پر آیا۔ اس ہوٹل پر ایک بیل بوائے اس کے پاس ایک پیغام لے کر آیا۔ آئن سٹائن کے پاس اسے دینے کیلئے کوئی ٹپ نہیں تھی چنانچہ اس نے صرف ایک خوش ہونے کا طریقہ (نظریہ) لکھا اور اس کے حوالے کردیا۔ یہ نوٹ ابھی ابھی 1.5 ملین ڈالر کا سیل کیا گیا ہے۔
البرٹ آئن سٹائن نے اس نوٹ میں جو لکھا وہ یہ تھا:
ایک پرسکون اور عاجزی میں گزاری گئی زندگی آپ کیلئے سچی خوشی لاتی ہے نہ کہ مستقل کامیابیاں جن کے ساتھ مستقل بے آرامی اور ہنگامی زندگی جڑی ہو۔ ذرا سوچیے
دنیا کے بہترین دماغوں میں سے ایک نے کہا ہے کہ پرسکون دماغ اورپرسکون زندگی اصل خوشحالی کی کنجی ہے۔ لیکن دیکھیے دنیا آج کل کس خوشی کے بارے میں سوچ رہی ہے۔ ہمیں مستقلا بتایا جاتا ہے
یہ لے لو
یہ کرلو
خود کومسلسل کام میں دھکیلتے رہو
سخت محنت کرو
اور پھر تم خوشی حاصل کروگے۔
اب ذرا تصور کریں آپ ایک نئی گھڑی خریدنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ آپ نے بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے جو اسے پہن رہے ہیں اور بہت اچھے لگ رہے ہیں اور بہت خوش بھی ہیں۔ کیا اس گھڑی کو حاصل کرلینا آپ کو خوشی دیتا ہے۔ یا پھر آپ تب خوش ہونگے جب آپ گھڑی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں گے۔
ہم اکثر بڑے گھروں کا سوچتے ہیں، سپر کاریں، کیا ایوارڈز یا تمغے ہمیں خوش رکھتے ہیں۔
لیکن عالمی شہرت یافتہ اداکار جم کیری کہتے ہیں:
میری خواہش ہے کہ ہر کوئی امیر ہوجائے اور شہرت بھی حاصل کرلے تاکہ وہ دیکھ سکے کہ ان کیلئے وہ کچھ معنی نہیں رکھتا۔
چنانچہ اس خوشی کے عالمی دن کے موقع پر آئیے سوچیں کہ آئن سٹائن نے کیا کہا تھا۔
آئیں ہم زندگی کے رش میں بھاگنا چھوڑ دیں۔ اورامیدوں کے سمندر سے نکل آئیں۔ کہ ہم یہ سب کچھ مستقبل کے کسی حصہ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
آئیں ایک پرسکون اور عاجزی سے پر طرز زندگی اپنائیں۔ اور اس خوشی کا تجربہ کریں جس کے ہم اس وقت حقدار ہیں۔