طیب اردگان جب ترکی کے وزیراعظم بن گئے تو ترکی کے حالات آج کے پاکستان سے ذیادہ برے تھے
1 ڈالر 15 لاکھ ترکی لیرا کے برابر تھا، ترکی آئی ایم ایف کا 90 ارب ڈالر کا مقروض تھا، ترک بنک کے پاس صرف 5 ارب ڈالر زرمبادلہ رہ گیا تھا، مہنگائی کا یہ عالم تھا کہ ترکی میں آلو اور پیاز اپنے وزن سے 2 گنا کرنسی سے بکنے لگے، کاروباری لوگ اپنی فیکٹریاں اٹھا کر جرمنی اور یورپ نکل لیے۔
مخالفین طیب اردگان کی حکومت بننے کے پہلے ہی ہفتے نعرے مار رہے تھے کدھر ہے تبدیلی کدھر ہے ترقی۔
پھر صرف اگلے 3 سالوں میں ترکی اپنے قدموں پر واپس آ چکا تھا۔طیب اردگان نے لوٹ مار اور کرپشن ختم کر کے سادگی اپنا کر چھوٹے کاروبار پر فوکس کر لیا۔۔۔ملک سے فرار کاروباریوں کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری بھی آنے لگی۔۔۔2011 وہ سال تھا جب ترک حکومت نے آئی ایم ایف کی آخری قسط منہ پر مارتے ہوئے کہا کہ اب قرضہ چاہیے تو ہم سے لینا۔۔۔2012 تک ترک سنٹرل بنک کے پاس صرف 26 ارب ڈالر کے ریزرو تھے اور آج ترک بنک کے پاس 182 ارب ڈالر کے زخائر ہیں اور آج ترکی دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔
اب ماضی کے ترکی کا موازنہ آج کے پاکستان کے ساتھ کیجئے،
پاکستان کو بھی ن لیگ اور پی پی نے مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر باری باری لوٹا ہے، ان دونوں پارٹیوں نے قرضہ لے لے کر پاکستان کو آج آئی ایم ایف کا 90 ارب ڈالر مقروض کردیا ہے، 1 ڈالر تقریباً 130 روپے کے برابر ہے، ذر مبادلہ کے ذخائر صرف 8 ارب کے رہ گئے ہے ، ملک کے تمام ادارے کرپشن کی وجہ سے تباہ ہوچکے ہیں، ماضی میں ملک کو اربوں منافع دینے والے ادراے، سٹیل مل ، پی آئی اے، ریلوے وغیرہ خسارے میں چل رہے ہیں، ملکی معیشت کا جنازہ نکل چکا ہے ، آج وطن عزیز ہر ماہ 2 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ میں چل رہا ہے، دنیا کے تقریبا ہر ملک کا ہم نے قرضہ دینا ہے،
آج پی ٹی آئی حکومت کو معرض وجود میں آئے ہوئے چند ہفتے ہوئے ہیں اور پاکستان کی معیشت سے لیکر معاشرت تباہ کرنے والے پٹواری پیپی والے اور ان کے ہر جرم میں برابر شریک مولانا فضل الرحمن روز نئے پراپیگنڈہ کے ساتھ حکومت کے سامنے صف باندھے نظر آتے ہیں۔۔۔پٹواری سارا دن ہاتھ میں کیلکولیٹر اٹھائے روز تبدیلی کا رزلٹ مانگتے ہیں، یہ جاہل سمجھتے ہے کہ عمران خان ٹیکس بھی نا لگائے، مہنگائی بھی نا ہو، قرضہ بھی نا لے، لیکن ان کو صرف تبدیلی چاہیے،
عمران خان مہنگائی لائے یا کرائے بڑھائے یا ٹیکس لگائے،
عمران خان قرضہ لے یا آئی ایم ایف کے پاس جائے، لیکن ایک بات طے ہے کہ ان تمام پیسوں سے نا تو دبئی اور لندن میں عمارات بنے گی اور نا ہی فلیٹ خریدے جائینگے،
یہ سب کے سب پیسے پاکستان کی ترقی اور غریب عوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ ہونگے، انشاءاللہ وہ دن دور نہیں جب پاکستان بھی ترکی ، سنگاپور اور ملائشیا کے صف میں کھڑا ہوگا،