تحریر : ممتاز ملک. پیرس
گلدستہ ٹوٹ کریوں سمندر میں گر گیا
اک پھول تیرتا ہو ا ساحل پہ آ گیا
کیسی ہے بے بسی میرے اللہ کیا کروں
خنجر نشانہ لے کے میرے دل پہ آ گیا
شملہ سجا تھاجو کبھی اجداد پہ میرے
ٹھوکر میں گر کے اب سر قاتل پہ آ گیا
اعزاز تیرے در کی طرف دیکھتا رہا
لیکن تیری وجہ سے وہ باطل پہ آ گیا
ممتاز جیتے جی نہ ہوئے سیر لب کبھی
اتناپیا کہ مرگ مقابل ہی آ گیا
یاد کیجیئے ہم سب نہیں تو اکثر یہ بات بچپن میں اپنے ماں باپ سے سنا کرتے تھے کہ بیٹا کمی اور خاندانی ہمیشہ پہچانے جاتے ہیں .اور ہم اپنی سمجھداری اور عملیت کا رعب ڈالنے کے لیئے کہتے کہ کہا کہہ رہے ہیں آپ؟ دنیا بہت آگے چلی گئی ہے .آپ پتہ نہیں کس زمانے میں جی رہے ہیں۔
لیکن آج دنیا کی اقدار دیکھ کر پھر سے وہ باتیں دل و دماغ پر ہتھوڑے برسا رہی ہیں کہ پھول جیسے بچے کی لاش تیرتے ہوئے ساحل پر اوندھی پڑی ہے . بے شمار کے جسم زندگی کی تلاش میں موت کی دھاروں پر بہہ نکلے. اور دنیا کے چند دہائیوں پہلے تک کے بھوکے ننگے بددوں نے اپنے محلوں میں کئی کئی گز کے دسترخوانوں سے شکم سیر ہو کر مہنگے ترین جبے پہن کر ہزاروں کی پرفیوم و عطر خود پر چھڑک کر کروڑوں کے گھروں سے نکل کر لاکھوں کی چمچماتی کاروں میں بیٹھ کرسونے چاندی سے جڑی ہوئی( عظیم الشان نہیں، کہ یہ لفظ ان مساجد کے قیام اور انتظام پر پورا نہیں اترتا ) مہنگی ترین مساجد میں ایک دوسرے کو چومتے چمواتے ان عربوں نے بہت ہی بڑی قربانی دیتے ہوئے دکھی دل کے ساتھ چند سو کلو میٹر پر واقع مسلم عرب ملک شام کے مسلمانوں کے لیئے ( کہ جنہوں نےیہاں ہونے والے جنگ و جدل ا ور قتل عام سے بچنے اور اپنے مصصوم بچوں کو زندہ رکھنے کی خواہش گناہگارانہ میں زمینوں کے دروازے نہ کھلنے پر سمندروں کو اپنا آپ سونپ دیا ) درد مندانہ دعائیں کیں کہ “یا اللہ ان مسلمانوں کی مشکلات کو دور کر دے۔
یا اللہ یورپ والوں کو ان پر رحم آ جائے . یااللہ مسلمانوں کے مسائل حل فرما . ان کو امن دے ان کو رزق دے . اسلام کو سربلندی عطا فرما . ……..” اور میرے کانوں میں سائیں سائیں سا ہونے لگا کہیں دور سے ابا کی آواز کانوں میں آ رہی ہے بیٹا” کمی وہ ہوتا ہے جو سونے کے پہاڑ اور تیل کے کنووں کا مالک بھی ہو جائے تب بھی کسی کو دھیلے کی مدد دینے سے پہلے سودا کرے گا کہ اسے اس کے بدلے میں کیا ملے گا ، اور خاندانی وہ ہوتا ہے جو چار دن کی بھوک اور روزے کے بعد اور بے روزگاری کے بعد بھی دن بھر پیٹ پر پتھر باندہ کر مزدوری کرنے کے بعد بھی سوکھی روٹی میسر آ جائے اور کوئی ضرورت مند، کوی سائل اس کی چوکھٹ پر صدا لگا دے تو بھی خالی نہیں جاتا .خود پانی سے حلق تر کر کے اسے اس روٹی سے نواز دیگا۔
“جو فاتح خیبر اور شیر خدا ہونے کے باوجود اپنے منہ پر تھوکنے والے کو اس لیئے معاف کر دیتا ہے کہ اگر اب میں نے اسے مار ڈالا تو خداکے نام پر شروع ہونے والی لڑائی کو میری ذاتی جنگ سمجھ لیا جائے گا ” ہاں ہم نے دیکھ لیا کمی اور پشتی کا فرق. بڑے سچ کہتے تھے . آج خزانوں پر سانپ کی طرح کنڈلی مارے عربی ہے یا عجمی ہر ایک کمی ہے اور خاندانی اپنی سفید پوشی کا بھرم لیئے قدرت کے اس پھیر کو دیکھ رہے ہیں . اور سوچ رہے ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں ان مظلوموں کے لیئے کہ ہماری آواز تو نقارخانے کے طوطی سے بھی زیادہ بے وقعت ہو چکی ہے . کہ فیصلے خاندانی لوگ نہیں بلکہ کمی لوگ کر رہے ہیں اپنے دماغ اور عقل سے اوپر کے فیصلے۔
جن کے دماغ عورت ،شراب ،کم سن بچوں ، اونٹوں کی دوڑوں ،تیتر اور ہرن کے شکار، بڑی بڑی عمارتوں اور پرتعیش نئے ماڈل کے جہازوں ،حرم کے نام پر بنے عیاشی خانوں سے باہر نکلیں تو انہی یہ سمجھ بھی آئے کہ تاریخ ان کے منہ پر روز ایک نئی کالک ملتے ہوئے رقم ہو رہی ہے . ماں باپ گریبان چاک کیئے اپنی بے بسی پر آنسو بہا رہے ہیں اور معصوم پھولوں کی لاشیں سمندر پر تیر رہی ہیں . جو خدا سے یہ تو پوچھتی ہی ہو ں گی کہ پروردگار ہمیں اس جہاں میں بھیجنے پر تجھے کیا ملا؟۔
میری بے بس لاچار موت پر نہ کسی تیل کے کنویں میں آگ لگی اور نہ ہی کوئی سونے کا پہاڑ پھٹا . ایک میں ہی تڑپا ، اک میں ہی چیخا لیکن کسی بھی موسیقی کی دھن پر تھرکتے طوائف کے ننگے بدن پر نوٹوں کی بوری لٹاتے نہ عربی کے کان پر جوں رینگی نہ عجمی کی غیرت کو جوش آیا . سب بھول جائیں گے. ایک اور نیا حادثہ انہیں پچھلے حادثے کی یاد سے بیگانہ کر دیگا . میں کسی کو یاد نہیں رہونگا. لیکن ہاں مجھے یقین آ گیا کہ یہ دنیا میرے قابل نہیں تھی جہاں قیامت کی نشانی بننے والے خود اس پر فخر رہے ہیں۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
تحریر : ممتازملک. پیرس