لاہور (انگریزی سے ترجمہ : شیر سلطان ملک ) وحید مراد کے بچپن اور سکول کے دنوں کے دوست جاوید علی خان فرائیدے ٹائمز میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ وحید مراد اور پرویز نے فلم پروڈکشن میں کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا اس مقصد کے لیے پرویز فلم ڈائریکشن اور پروڈکشن میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے
لاس اینجلس ( امریکہ ) چلا گیا ۔ پرویز ابھی وہاں زیر تعلیم ہی تھا جب وحید مراد اپنی پہلی فلم مکمل کر چکا تھا ۔ اگرچہ یہ ایک کامیاب فلم ثابت نہ ہوئی ، مگر اس بات کی پروا کیے بغیر وحید نے پہلی فلم کے مایہ ناز اداکاروں (درپن اور شمیم آرا) کے ساتھ ہی دوسری فلم ” جب سے دیکھا ہے تمہیں ” شروع کر دی ۔ چونکہ یہ دونوں اور انکے بعد اسکی آنیوالی فلمیں کراچی میں ہی بنائی گئیں ، اداکار درپن اکثر وحید مراد کے گھر آ جاتے اور انکل نثار مراد کے پاس قیام پذیر ہوتے ۔ وحید مراد اور میں انکے بڑے اچھے دوست اور مداح بن گئے ۔ ہم ہر سال گرمیوں میں ٹرین کے ذریعے مری جاتے ، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا کہ ہم ٹرین کے ذریعہ کراچی سے لاہور پہنچتے ، وہاں چند روز درپن صاحب کے گھر میں گزارتے اور پھر کسی سے کارمانگ کر مری کی طرف عازم سفر ہوتے ۔ ہم ابھی یونیورسٹی میں ہی تھے جب وحید مراد نے ایک سندھی ہیرو کے ساتھ ایک فلم بنانے کا فیصلہ کیا ۔ دراصل وحید ساحل اور سمندر سے کافی متاثر تھا ۔ ہم جھینگے پکڑنے کے لیے کشتیوں پر کیماڑی کی بندرگاہ تک چلے جاتے تھے ۔
جو ان دنوں میں ایک مقبول اور معروف مقام تھا ۔ وحید چاہتا تھا کہ وہ نئی فلم سمندر کنارے یا جھیل جیسی رومانوی لوکیشن پر بنائے ۔ اس نے کہیں سے سنا تھا کہ اندرون سندھ میں منچھر نامی ایک جھیل ہے جہاں آس پاس کوئی آبادی وغیرہ نہیں اور یہ مقام انسانوں کی تباہ کاریوں سے بچا ہوا اصل قدرتی حالت میں موجود ہے ۔ چنانچہ ایک بار یونیورسٹی سے چھٹی کے دنوں میں وحید مراد نے مجھے کہاں کہ میں منچھر جھیل تلاش کرنے کے لیے اس کے ساتھ اندرون سندھ چلوں اور پھر وہ جگہ دیکھنے کے بعد اسے مشورہ دوں کہ فلم بنانے کے لیے اس ساحلی بستی کے لوگوں کے ساتھ یہ لوکیشن اچھی رہے گی یا نہیں ؟ چنانچہ ہم اسکی زرد رنگ کی واکس ویگن میں پہلے حیدر آباد پہنچے ، رات ہم نے وہاں گزاری اور پھر اگلی صبح ہم نے ایک جیپ اور گائیڈ لیاجن کا انتظام انکل نثار مراد نے اپنے کسی جاننے والے سینما مالک دوست اور کلائنٹ کو کہہ کر کروایا تھا، گائیڈ کی رہنمائی میں ہم اس مقام کی طرف روانہ ہوئے ۔ ہمارے گائیڈ کا کہنا تھا کہ وہ کبھی منچھر جیل کے مقام پر نہیں گیا مگر اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ یہ کہاں واقع ہے ۔انکل نثار کے دوست و کلائنٹ سینما مالک اور گائیڈ دونوں کا کہنا تھا
کہ ہمارا یہ سفر پورے دن کا ہو گا اور منچھر جیل سے ہماری حیدر آباد واپسی رات گئے ہو گی ۔یہ 1960 کا واقعہ ہے اور ان دنوں یہاں کی سڑکیں کچے پکے راستوں اور ریتلی گزرگاہوں پر مشتمل تھیں ۔ ہم حیدر آباد سے نہر کے ساتھ ساتھ جیپ دوڑاتے دادو کی طرف بڑھنے لگے ۔ راستے میں ہمارا گائیڈ نظر آنیوالے ہر شخص سے منزل مقصود کا پتہ پوچھتا رہا ۔ دوپہر کے وقت ہم ایک گاؤں میں پہنچے جہاں سے ہم نے کھانے کے لیے کچھ لیا اور پھر اپنا سفر شروع کیا ۔ جب بھی ہم اپنے گائیڈ سے پوچھتے ، ہماری منزل یعنی منچھر جھیل کتنی دور ہے ؟ تو وہ ہمیں جواب دیتا ، بس بھائی اب زیادہ دور نہیں ۔ جلد ہم سڑک سے ایک کچے راستے پر آ گئے اب ہم ہرے بھرے کھیتوں کو پیچھے چھوڑ کر بنجر اور بے آب و گیاہ ریت کے ٹیلوں کے درمیان سفر کرنے لگے ۔ اگرچہ میں وحید مراد کو پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا پھر بھی میں یہ کہے بغیر نہ رہ سکا کہ ہمارے گائیڈ کو ذرا بھی علم نہیں کہ یہ جھیل کہاں واقع ہے جسکی تلاش میں ہم جار ہے ہیں ۔
کیا اب اتنا دور نکل آنے کے بعد ہمیں واپسی کی راہ اختیار کرنی چاہیے ؟ لیکن نہیں ، یہ ہمارے جوانی کے دن تھے چنانچہ ہم نے ہار نہ مانی اور آگے بڑھتے رہے اور راستے میں نظر آنے والے ہر شخص سے منچھر جھیل کا اتا پتا پوچھتے رہے ۔ اگرچہ ہمارے راستے میں آنے والے ایسے افراد کی تعداد بھی اب بہت کم ہوتی جا رہی تھی ۔ وحید مراد کی ظالمانہ اور تھکا دینے والی ڈرائیونگ جاری رہی اور بالاخر ریت کا ایک بڑا ٹیلہ بمشکل عبور کرنے کے بعد ہم جب دوسری طرف پہنچے تو ہمارے سامنے منچھر جھیل تھی ۔ مگر افسوس! یہ کیسا دل توڑ دینے والا اور مایوس کن نظارہ تھا ۔ سبزے اور ہریالی کا کہیں نام و نشان نہ تھا ، جھیل کے ارد گرد خود رو جھاڑیاں اگی ہوئی تھیں اور جھیل میں پانی اتنا ہی تھا کہ یہ غور سے دیکھنے پر کیچڑ کا ایک گڑھا معلوم ہو رہی تھی ۔ فلم بنانے کے لیے یہ لوکیشن قطعی طور پر غیر رومانی، بے رنگ اور نامناسب تھی ۔ ہم نے وہاں زیادہ وقت ضائع کرنا مناسب نہ سمجھا اور کچھ دیر وہاں آرام کرنے کے بعد واپس چل دیے ۔
کراچی سے مری آتے ہوئے میں اور وحید باری باری ڈرائیونگ کرتے مگر یہ سفر میری صلاحیتوں سے بہت آگے کا تھا اور وحید نے یہ مشکل مرحلہ بڑی آسانی کے ساتھ عبور کیا تھا ۔ منچھر جھیل کا اس کا پلان اگرچہ فلاپ ہو گیا تھا مگر پھر بھی وحید مراد نے ” ہیرا پتھر ” کے نام سے ایک فلم بنائی جس میں اس نے گدھا گاڑی چلانے والے ایک سندھی کا کردار ادا کیا ، بعد میں ” سمندر” کے نام سے اپنی ایک فلم میں اس نے ایک مچھیرے کا کردار ادا کیا ۔ یہ فلم مچھیروں کی زندگی پر ایک ساحلی بستی میں بنائی گئی ۔ واپسی کے سفر میں ہم ایک بار پھر راستہ بھول گئے کیونکہ ہمارا گائیڈ واپسی پر بھی ہر نظر آنے والے شخص سے دادو اور حیدر آباد کو جانے والے راستے کا پوچھتا رہا ۔ اس وقت تک شام ہو چکی تھی اور ہماری جیپ نہ صرف مسلسل سفر کرنے کے بعد “ہیٹ” ہو چکی تھی بلکہ اس میں پٹرول بھی ختم ہونے کے قریب تھا ، میلوں تک آبادی کا نام ونشان نہ تھا اور قریب تھا کہ ہماری گاڑی میں پٹرول مکمل ختم ہوتا اور ہم اسی ویرانے میں بغیر کچھ کھائے پیے رات گزارنے پر مجبور ہوتے ،
خوش قسمتی سے ہم ایک چھوٹے سے گاؤں میں جا پہنچے ۔ اس وقت تک رات ہو چکی تھی اور ہماری جیپ کا ریڈی ایٹر بھی لیک ہو چکا تھا ، اس گاؤں میں کسی قسم کی کوئی سہولت حتیٰ کہ بنیادی ضروریات بھی دستیا ب نہیں تھیں ۔ کچھ لوگ ہماری گاڑی کے گرد جمع ہو گئے تاکہ دیکھ سکیں کہ یہ “شہری بابو “کون ہیں اور یہاں کیا کر رہے ہیں ۔ ہمارے گائیڈ نے انہیں ساری بات بتائی تو ان دیہاتیوں کے درمیان ایک پرمغز اور سنجیدہ گفتگو شروع ہو گئی جو کچھ دیر تک جاری رہی ، یہ ساری بات چیت سندھی میں ہو رہی تھی چنانچہ میں اور وحید اس میں سے کچھ نہ سمجھ سکے ۔ کچھ دیر بعد غالباً ان میں سے سب سے سیانا شخص آگے آیا اور بولا کہ انکے پاس اس قسم کی کوئی سہولت موجود نہیں تھی جنکی ہمیں ضرورت تھی ۔ لہذٰا وہ ہماری کوئی بھی مدد کرنے سے قاصر تھے ۔ اس نے مزید کہا کہ اگر ہم اسی سمت میں اپنا سفر جاری رکھیں تو ایک گھنٹے کی مسافت پر ہم سیہون پہنچ جائیں گے ، جہاں ایک بڑی درگاہ ہے ۔ وہاں اگرچہ ہماری کوئی مکینک یا پٹرول پمپ تو نہیں ملے گا مگر اس درگاہ کے سجادہ نشین کے پاس کئی جیپیں تھیں اور لازمی طور پر انکے پاس مکینک اور پٹرول بھی ہو گا.
لہٰذا وہ لوگ ہماری بہتر طور پر مدد کر سکیں گے ۔ ہم رات کو 9 یا 10 بجے سیہون شریف پہنچے تھے ۔ ہمارے گائیڈ نے نوجوان سجادہ نشین کو سمجھایا کہ ہم کون تھے اور کراچی سے یہاں کس مقصد سے آئے تھے ۔ یہ جان کر کہ ہمارا تعلق کراچی کے معزز خاندانوں سے تھا محترم سجادہ نشین کو بہت خوشی ہوئی اور اس نے ہماری خوب آؤ بھگت کی۔ انہوں نے رات کے لیے ہمیں اپنا مہمان بنا لیا اور ہمارے لیے ایک شاندار کھانا تیار کرنے کی ہدایات جاری کیں ۔ ساتھ ہی انہوں نے اپنے مکینک کو بلوا بھیجا اور اسے ہدایات جاری کیں کہ نہ صرف ہماری گاڑی کا ریڈی ایٹر ٹھیک کیا جائے اور اس میں پٹرول ڈالا جائے بلکہ صبح تک اسے ہر قابل استعمال حالت میں لایا جائے تاکہ ہم اپنا سفرجاری رکھ سکیں ۔ رات کو اس محترم سجادہ نشین نے ہمیں اس صوفی بزرگ سخی لال شہباز قلندر کے بارے میں بتایا جنکا یہ مزار (سیہون شریف ) تھا ۔ اس وقت یعنی 1960 میں سیہون شریف اتنا مشہور اور مقبول شہر نہیں تھا جتنا آج ہے ، تب باہر کے بہت کم لوگ دربار لال شہباز قلندر سے واقف تھے اور,
پھر آج کی طرح سیہون شریف کی طرف کوئی باقاعدہ سڑک نہیں جاتی تھی ، ماسوا ئے ایک بڑی سڑک (ہائی وے ) کے جو آج بھی موجود ہے ۔ جیسے کر نال حضرت بو علی قلندر رحمتہ اللہ علیہ کے نام کی وجہ سے جانا جاتا تھا ۔ رات کو اپنے بستروں پر لیٹ ہوئے میں نے قلندروں کے پس منظر کے حوالے سے وحید مراد کو بتایا اور یہ کہ کیسے ان لوگوں نے صوفیوں کے رتبے پائے ۔ صبح ناشتے کے بعد سجادہ نشین محترم نے ہمیں مشورہ دیا کہ ہم اس دربار میں مدفون صوفی بزرگ کے مزار پر حاضری دیں فاتحہ پڑ ھیں اور اپنے حق میں بھی دعا کریں ۔ میں نے ا نہیں بتایا کہ ہم لوگ تو خود درگاہوں پر بڑے شوق سے حاضری دیتے ہیں ۔ وحید مراد کو اور مجھے مزار شریف پر لے جایا گیا ۔ سجادہ نشین صاحب نے ہمیں یہ بھی کہا کہ گاڑی خراب ہونا تو ایک بہانہ ہے ، ہمیں ایک پراسرار طاقت یہاں کھینچ کر لائی ہے ۔ہم درگارہ اور دربار والوں کے خصوصی مہمان ہیں اس لیے ہم یہاں جو دعا مانگیں گے وہ ضرور منظور و مقبول ہو گی ۔ پھر ہم نے تہہ دل سے اپنے میزبان کا شکریہ ادا کیا اور پھر عازم سفر ہوئے ۔ راستے میں پہلی بار وحید مراد نے اپنے دل کے اندر چھپی خواہش مجھے بتائی ۔ اس نے پہلے تو پوچھا کہ میں نے دربار سہیون شریف پر اپنے لیے کیا دعا مانگی تھی ۔؟ میں نے جواب دیا ! ” میں نے دعا کی ہے کہ اللہ مجھے ایم اے انگلش میں فرسٹ ڈویژن سے پاس ہونے کی قابلیت عطا فرمائے” ، تب میرے تخیل کی انتہا یہی تھی ۔ پھر وہ بولا ! تم جانتے ہو میں نے اپنے لیے کیا دعا مانگی ہے ؟ میں نے اللہ سے دعا مانگی ہے کہ مجھے اس ملک کا سب سے زیادہ خوبصورت سمجھا جانیوالا اداکار اور فلمی دنیا کا چمکتا ستارہ بنا دے ۔۔۔۔۔ اور دنیا نے دیکھا کہ وحید مراد کی دونوں دعائیں پوری ہوئیں ۔