تحریر : شاہ بانو میر
سکندر اعظم جب دنیا فتح کرنے نکلا تو ایک مقام ایسا آیا جب اس کے جنگجو اس سے قدرے متنفر ہو گئے انہیں اپنے اہلِ خانہ کی یاد ستانے لگی ٬ اور لشکر میں بے سکونی کی سی کیفیت ہو گئ٬ انہوں نے اس کے احکامات عملی طور پر ماننے سے انکار کرتے ہوئے پیش قدمی روک دی٬ یہ صورتحال سکندراعظم کیلیۓ سخت تکلیف دہ تھی٬ اس نے کئی روز خوب سوچ و بچار کی لیکن سپہ سالار ٹس سے مس نہ ہوئے٬ اور پھر ناچار اس نے ایک بات سوچی اور اپنے استاد ارسطو کو تمام صورتحال لکھ بھیجی ٬ ارسطو اس وقت بہت ضعیف العمر ہو چکا تھا
٬ ایلچی دن رات تیر رفتاری سے منزلیں مارتا ہوا ارسطو کے پاس پہنچا اور سکندر اعظم کی پریشانی سے آگاہ کیا٬ سکندر اعظم کا خط سن کر ضعیف ارسطو نے ایلچی کو کوئی تحریر لکھ کر نہ دی بلکہ اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے وہاں سے باہر کی جانب چل پڑا ٬ ایلچی سخت متذبذب تھا لیکن چارو ناچار اسے ان کے پیچھے جانا پڑا ٬ ارسطو اپنے باغ میں پہنچا اور اور اس نے مالی کو اشارہ کیا کہ یہ پُرانے درخت جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دے
٬ مالی نے بہت تگ و دو کے بعد درخت کو اکھاڑ کر پھینک دیا٬ اور مالی کو اشارہ کیا کہ نئی پنیری لگا دے٬ مالی نے نئی پنیری جب لگا دی تو ارسطو نےایلچی کو رخصت ہونے کا اشارہ کیا ایلچی حیران و پریشان سکندر اعظم کی بڑہتی ہوئی پریشانی اور یہ بے نیازی دیکھ کر وہاں سے رخصت ہوا٬ سکندرِا عظم کے پاس پہنچا تو اس نے ہاتھ بڑہایا کہ خط دو ٬ اس نے جھجھکتے ہوئے کہا جناب والا مجھے تو کوئی مخطوط نہیں دیا گیا تو؟ سکندر اعظم نے قدرے تعجب سے سوال کیا؟
استادِ محترم نے کوئی بات نہیں کی؟ نہیں جناب وہ بات نہیں کر سکتے تھے ٬ مگر میرے خط کے جواب میں انہوں نے کیا کیا؟ سکندر اعظم اپنے ساتھ استاد کی توجہ اور فکر کو بخوبی جانتا تھا اس نے پھر سوال کیا٬ جناب انہوں نے مجھے خط تو نہیں دیا البتہ وہ مجھے لے کر اپنے باغ میں ضرور گئے اور وہاں موجود پرانے درخت کو مالی سے کہہ کر اکھاڑ کر باہر پھنکوا دیا٬ اور نئی پنیریاں لگوا دیں اوہ سکندر اعظم کا یکلخت چہرہ خوشی سے چمکنے لگا مجھے پتہ چل گیا میرے استادِ محترم نے کیا حکم دیا ہے٬ دوسرے روز سکندر اعظم نے تمام سپہ سالار جو اس سے بغاوت کرنا چاہ رہے تھے
ان سب کو ان کے عہدوں سے فارغ کیا اور نئی بھرتی کی٬ نئی تازہ دم رہنمائی نے پھر وہ کمال کیا جس نے آدھی دنیا کو اپنا بنا لیابہت خوبصورت لاجواب سبق ہے کہ جب پرانے رشتے تعلق اور لوگ بے مقصد پریشانیاں صرف اپنی ذات کے مفاد کییۓ دیں تو بہتر ہے کہ انہیں ان کے مقام سے الگ کر کے نئی بھرتی کی جائے ٬ اور نئی کامیابی کا راستہ کھول دیا جائے٬
ادارے اور کام کسی شخصیت سے مشروط نہیں ہونے چاہیے ادارے کو مضبوط ہونا چاہیے لوگ تو آتے جاتے رہتے ہیں ٬ سفر کو کامیابی سے رواں دواں رہنا چاہیے تا کہ منزلِ مقصود تک پہنچا جا سکے٬ یہ صدیوں پرانا سبق ہے جسے آج بھی آزمودہ نسخے کے طور پے جانا جاتا ہے٬