counter easy hit

وسط ایشیاء کے سفرنامہ سے ایک ورق موت کا نشان جو موت کے حکم سے بچ گیا

بخارا کے چھوٹے سے ہوائی اڈے سے جب میں شہر کی سمت جارہا تھا تو پتلی سی سڑک کے دونوں طرف ریت کے بے ہنگم ٹیلے دکھائی دئے اور ان کے پیچھے دور تک وہ کھیت تھے جو کپاس کی پے در پے فصلیں اگا کر بد حال نظر آتے تھے۔پھر ان سے پرے دور تک روسی انداز کے فلیٹوں کی عمارتیں کھڑی پرولتاری دور کی ناکامی کی یاد دلا رہی تھیں۔

میرا دل دھک سے رہ گیا۔ کیا یہ زر افشاں دریا کی وہی سر زمین ہے جس نے دنیا کی تہذیب و تمدان کی تاریخ کو شان و شوکت اور فخر و افتخار سے مالا مال کیا تھا۔ اور کیا یہ پتلی سے سڑک، چین کو یورپ سے ملانے والی وہی، شاہراہ ریشم ہے جس پر واقع بخارا صدیوں تک علم و حکمت، فن و حرفت اور آرٹ اور ثقافت کا ایک درخشاں مرکز رہا ہے،

لیکن جیسے ہی زر افشاں دریا پار کر کے جب میں شہر کے مضافات میں پہنچا تو سامنے صدیوں پرانے، دو بڑے بڑے میناروں کے بیچ میں ایک دروازہ نظر آیا۔ یہ بخارا کے چار دروازوں میں سے بچا ہوا ایک دروازہ ہے جو تاریخ کے آشوب اور موسم کے ستم جھیل کر بھی ڈٹا کھڑا تھا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی اینٹوں پر مجھے رشک آیا کہ انہوں نے کیسے کیسے دور دیکھے ہوں گے۔ کیسے کیسے لوگوں کو دیکھا ہوگا، ان کی باتیں سنی ہوں گی۔ ان میں سے بہت سوں کی آرزوئیں پوری ہوتی دیکھی ہوں گی اور بہت سو ں کی تمنائوں کی ناکامی کے درد کو محسوس کیا ہوگا۔ اس دروازہ کے مسمار شدہ دروازہ کا ایک حصہ ان سب باتوں کی شہادت دیتا نظر آتا تھا۔

بخارامحض چند صدیوں پرانا شہر نہیں۔ یہ تین سو تیس سال قبل مسیح میں بھی تجارت اور ثقافت کا اہم مرکز تھاجب یہاں سے سکندر اعظم گزرا تھا۔ کہتے ہیں اس شہر کا موجودہ نام بودھوں کے زمانے میں پڑا تھا ۔ یہاں بدھ مت کی ایک بڑی عبادت گاہ تھی جو ”ویہارہ” کہلاتی تھی اور یہ نام بدلتے بدلتے پہلے ”بے خارہ” اور پھر بخارا بن گیا۔

آٹھویں صدی تک یہ شہر زرتشتیوں کا اہم مرکز تھا۔ لیکن جب 711ء میں عین اس وقت جب محمد بن قاسم بحیرہ عرب پار کر کے سندھ میں داخل ہوئے، ایک اور عرب جرنیل ، قنیبہ ابن مسلم، آمو دریا پار کر کے وسط ایشیاء میں داخل ہوئے تھے اور دو برس کے اندر اندر یہ بخارا اور سمرقند فتح کرتے ہوئے مشرق میں سنکیانگ میں کاشغر تک پہنچ گئے۔ یہ فوجی فتح تھی۔۔لیکن در حقیقت اسلام کی روشنی اس سے کئی برس پہلے رسول اللہ ﷺ کے ایک عم زادے حضرت قاسم بن عباس نے پھیلائی تھی۔

بخارا کی قدیم تاریخ کے اوراق ذہن میں الٹتا ہوا جب میں پرانے شہر کے مغربی سرے پر پہنچا تو دیکھا کہ سامنے گہرے آسمان کے پس منظر میں خاکی اینٹوں کا بنا ہوا ایک خوبصورت چوکور مقبرہ کھڑا ہے اپنی ایک نرالی آن بان کے ساتھ۔ مقبرہ سادہ اینٹوں سے اس ترتیب اور کاری گری سے سجا ہوا تھا کہ دیواریں اینٹوں سے بنی ہوئی نظر آتی تھیں۔ قندیلیں بھی دیواروں میں اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں اور اوپر گنبد بھی اینٹوں کا بنا ہوا تھا۔ کرشمہ ان اینٹوں کا یہ تھا کہ سورج کی روشنی کے ساتھ ساتھ ان کا رنگ بھی بدلتا نظر آتا تھا۔ معجزہ یہ کہ یہ مقبرہ چنگیز خان کے حملے کی تباہی سے بچ گیا کیونکہ جس زمانے میں بخارا پر چنگیزی تباہی ٹوٹی اس وقت یہ مقبرہ ریت میں دبا ہوا تھا۔

یہ سامانی سلطنت کے چشم و چراغ، اسمعیل سامانی کا مقبرہ ہے۔ نویں صدی میں بخارا، سامانی سلطنت کا دارالحکومت تھا جس کی سرحدیں افغانستان میں ہرات تک اور ایران میں اصفہان تک پھیلی ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں بخارا کی آبادی تین لاکھ تھی اور اس شہر میں ڈھائی سو دینی مدرسے تھے جہاں یمن اور اندلس ایسے دور دراز مقامات سے طالب علم دینی علم کی پیاس بجھانے آتے تھے۔ اُس زمانے میں یہ محض دینی مرکز ہی نہیں تھا بلکہ سائنس اور دوسرے علوم کا بھی سر چشمہ تھا۔ کہتے ہیں کہ سامانی حکمران کے کتب خانے میں 45 ہزار کتابیں تھیں اور اس زمانے میں بخارا، بغداد کا ہم پلہ مانا جاتا تھا۔

اسی کتب خانے سے حسین ابن عبداللہ ابن سینا نے فیض حاصل کیا تھا اور دنیا میں ابن سینا کے نام سے ایک فلسفی، طبیب، ماہر نجوم، ریاضی دان، موسیقار اور شاعر کی حیثیت سے شہرت حاصل کی۔

کہا جاتا ہے کہ اٹھارہ سال کی عمر میں انہوں نے سامانی حکمران کے ایک پرانے مرض کا ایسا کامیاب علاج کیا کہ جس سے خوش ہو کر بادشاہ نے انہیں اپنے کتب خانے سے فیض حاصل کرنے کی اجازت دے دی تھی۔ پھر اسی کتب خانہ میں ان کی اپنی تحریر کردہ کتابوں کا اضافہ ہوا۔ ابن سینا ہی نے سب سے پہلے ارسطو کا ترجمہ عربی میں کیا اور انہوں نے ادویات کی مشہور کتاب ” قانون ” مرتب کی جو علم طب کی انسایکلوپیڈیا مانی جاتی ہے۔ کئی سال تک ابن سینا سامانی دربار میں وزیر اعظم بھی رہے۔

بادشاہ کے محل کے قریب ہی بخارا کا کلاں مینار ہے۔ بارہویں صدی کا یہ مینار جو ڈیڑھ سو فٹ بلند ہے ، وسط ایشیا ء کا سب سے بلند مینار مانا جاتا ہے۔ اینٹوں سے بنے اس مینار کا اوپری حصہ بالکل روشنی کے مینار، لایٹ ہاوس کی مانند ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مینار اُس زمانہ میں قافلوں کی راہ نمائی اور ان کی نگرانی کے لئے استعمال ہوتا تھا لیکن میری راہنما نتاشا کا کہنا تھا کہ اور بھی مصرف تھے اس مینار کے ۔ ایک زمانے میں اس کلاں مینار کو ٹیکس ادا نہ کرنے والے افراد یا بادشاہ کے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے استعمال یا جاتا تھا۔ جسے سزائے موت سنائی جاتی تھی اسے پہلے سیڑھیوں سے اوپر لے جایا جاتا تھا پھر اسے نیچے شہر کا آخری نظارہ کرایا جاتا تھا اور پھر اسے بوری میں بند کر کے نیچے گرا دیا جاتا تھا ۔کہا جاتا ہے کہ سزائے موت کا یہ طریقہ بیسویں صدی کے اوائیل تک جاری تھا اور زار روس کے دور میں بھی اس مینار کا یہ مصر ف تھا۔

یہ ستم ظریفی ہے کہ بارہویں صدی میں جب چنگیز خان نے بخارا پر حملہ کیا اور تین روز تک محاصرے کے بعد شہر میں داخل ہوا تو وہ اس مینار کو دیکھ کی انگشت بد نداں رہ گیا۔ چنگیز خان نے موت کے اس مینار کے علاوہ بخارا کی تمام عمارتوں کو زمیں بوس کر دینے کا حکم دیا۔ موت کے حکم سے موت کا یہ نشان بچ گیا۔ جو اب تاریخ کا ایک نشان رہ گیا ہے۔

بخارا نے چنگیز خان کی تباہی و بربادی ہی کا سامنا نہیں کیا بلکہ اس نے خود اپنے حکمرانوں کا ظلم و ستم بھی دیکھا ہے۔ ایسے ہی حکمرانوں میں بخارا کا ایک حکمران نصر اللہ تھا جسکا طویل دور 1826ء میں شروع ہوا تھا، اقتدار اس نے اپنے والد اور اپنے بڑے بھائی کو قتل کر کے حاصل کیا تھا اس کے بعد اس نے اپنے تین چھوٹے بھائیوں کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا تاکہ اس کے اقتدار کو کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ امیر بخارا کا محل، قلعہ نما ہے اس میں دربار میں داخل ہونے کا دروازہ اتنا چھوٹا تعمیر کیا گیا ہے کہ جو بھی دربار میں داخل ہوتا اسے جھک کر جانا پڑتا۔ کیسا نرالا طریقہ اختیار کیا تھا اس زمانے میں امیر بخارا نے لوگوں کو اپنے سامنے جھکانے کا۔

کلاں مینار کے نزدیک ہی بخارا کا وہ تاریخی مدرسہ ہے جو ” میر عرب” مدرسہ کہلاتا ہے۔ یہ تین سو سال پرانا ہے۔ اس کے بارے میں میری راہ نما نتاشا نے بتایا کہ میر عرب واحد مدرسہ تھا جس میں کمیونسٹ دور میں بھی دینی تعلیم کی اجازت تھی۔ اُس زمانہ میں اس مدرسہ میں صرف 80 طالب علموں کو داخلہ ملتا تھا لیکن موجودہ منتظمین نے بتایا کہ اب بارہ سو طالب علموں کو داخلہ دیا جاتاہے۔ میر عرب مدرسہ کے قریب ہی ایک خوب صورت مسجد ہے جو مسجد بالائے حوض کہلاتی ہے۔ یہ اٹھارویں صدی میں تعمیر ہوئی تھی جو اصفہان کی مشہور مسجد کے طرز کی ہے۔

بخارا کے مضافات میں ممتاز صوفی اور نقشبندی طریقہ کے بانی عالم دین حضرت بہاء الدین نقشبندی کا مزار ہے۔ چھ سو سال پرانا یہ مزار نہایت سادہ لیکن وسیع مسجد کے احاطہ میں ہے اس احاطہ میں دو کنویں ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خود حضرت نقشبندی نے کھودے تھے۔ یہی وجہ ہے ان پر عقیدت مندوں کا ہجوم رہتا ہے۔ میں جب ان میں سے ایک کنویں پر پانی کے لئے اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا تو دیکھا کہ مسجد کے دالان کے ایک کونے میں میری راہ نما نتاشا سر پر اسکارف ڈالے امام مسجد کے سامنے بڑے خضوع و خشوع سے دو زانو بیٹھی ہے اور امام صاحب اس کے لئے دعا مانگ رہے ہیں۔ روسی نژاد عیسائی نتاشا کی یہ عقیدت دیکھ کر میں حیرت زدہ رہ گیا ۔ جذبہ عقیدت کس تیزی سے مذہب کی حدوں کو پھلانگ گیا تھا۔