کہا جاتا ہے کہ تمام فنون لطیفہ (مصوری، ادب، موسیقی، مجسمہ سازی وغیرہ) دراصل ایک ہی ماں کے بچھڑے ہوئے بچے ہیں کہ میڈیم کے فرق سے قطع نظر سب میں قدم قدم پر اشتراک کے پہلو نظر آتے ہیں اور شائد یہی وہ بنیادی محرک تھا جس کی وجہ سے برادرم میاں اعجاز الحسن نے مجھے بھی مصوری کی اکیسویں سالانہ نمائش میں انعام یافتگان کو ٹرافیاں دینے کے لیے مدعو کیا اور میری ہر وضاحتی اور معذرتی دلیل کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے انتشار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ فن کاروں نے بھی مذہبی فرقہ پرستوں کی تقلید میں کبوتروں کی طرح اپنے اپنے ڈربوں میں رہنا شروع کر دیا ہے۔
وہ دن یاد کریں جب 90 شاہراہ قائداعظم پر واقع آج کے چیف منسٹر سیکریٹریٹ اور سابقہ ہیڈ آفس پنجاب آرٹ کونسل میں ہم سب اکٹھے اٹھتے بیٹھتے تھے۔ انکار کا سوال تو ویسے بھی پیدا نہیں ہوتا تھا لیکن اس دلیل کے بعد تو ہتھیار ڈالے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں تھا۔ لیکن یوں ہوا کہ فون رکھنے کے ساتھ ہی ذہن میں یادوں کا ایک دریچہ سا کھل گیا۔ میرے ساتھ والا کمرہ معین نجمی مرحوم کا تھا جو خود ایک نامور مصور ہونے کے ساتھ ساتھ اس زمانے کے مشہور فلم اسٹار اسلم پرویز کے بھائی بھی تھے۔ وہ مصوری کے شعبے کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے اور میں ادب اور ڈرامے کا جب کہ کلاسیکی گائیک بدرالزماں موسیقی کے شعبے کے انچارج تھے۔
ریڈیو کے سینئر پروڈیوسر اور پنجابی فکشن کا ایک بہت بڑا نام سجاد حیدر ہمارے ڈائرِیکٹر تھے۔ جو ایک انتہائی شاندار انسان تھے اور یہ انھی کی مشفقانہ رہنمائی تھی کہ ہم تینوں تقریباً ہر پروگرام میں اس طرح مل جل کر حصہ لیتے تھے کہ اصل ذمے دار کا پتہ لگانا مشکل ہو جاتا تھا۔ ہوا یوں کہ جہاں میرے ساتھیوں کی ملاقات ادب اور ڈرامے کے اہم ناموں سے ہوئی وہاں مجھے بھی اس دور کے مصوروں اور موسیقی سے متعلق احباب سے براہ راست ملنے کا موقع ملا۔
معین نجمی اور ان کے احباب کی معرفت نہ صرف میں عالمی شہرت کے حامل مصوروں کے ناموں اور ان کے کام سے متعلق مصوری کی مختلف تحریکوں سے آشنا ہوا بلکہ برصغیر اور بالخصوص پاکستان کے نئے اور پرانے فن کاروں کے بارے میں بھی جاننے کاموقع ملا۔ جہاں عبدالرحمن چغتائی، استاد الٰہ بخش اور دیگر اہم استاد مصوروں کے کام سے کچھ آشنائی ہوئی وہاں یہ بھی پتہ چلا کہ مسلمان حکومتوں سے وابستہ علاقوں میں مصوری کے بعض پہلوؤں مثلاً انسانی چہرے کی تصویر کشی سے گریز کیوں کیا گیا۔ اس کے ساتھ ساتھ صادقین، احمد پرویز، گل جی، احمد علی، غلام رسول، خالد اقبال، حنیف رامے، انور جلال شمزا، کولن ڈیوڈ، اینا مولکا احمد، سعید اختر، احمد خان، اقبال مہدی اور میاں اعجاز الحسن سمیت بہت سے نامور مصوروں سے بالمشافہ ملنے اور ان کے فنی نظریات کے بارے میں کچھ خاص خاص باتیں جاننے کا بھی موقع ملا۔
یہ سلسلہ 1979ء میں اس وقت بظاہر منقطع ہو گیا جب میں اپنا چار سالہ ڈیپوٹیشن پیریڈ ختم کرنے کے بعد شعبہ تعلیم میں واپس چلا گیا لیکن مصوری سے میری رغبت میں کوئی کمی نہیں آئی اور آج بھی میں نہ صرف بیرون وطن سفر کے دوران آرٹ گیلریز میں کچھ وقت گزارنے کی کوشش کرتا ہوں بلکہ اندرون وطن بالخصوص لاہور میں مصوری سے متعلق نمائشوں اور تقریبات میں حتی المکن حاضری دیتا ہوں۔
اس تقریب میں میاں اعجاز الحسن کے علاوہ کئی پرانے مصور دوستوں سے بھی ملاقات ہو گئی جن میں سے این سی اے کے پرنسپل جعفری صاحب کواپرا والے جاوید صاحب، غلام مصطفیٰ، ذوالفقار زلفی، ڈاکٹر ملیحہ، ڈاکٹر مسرت اعجاز الحسن اور منور محی الدین کے نام فوری طور پر ذہن میں آ رہے ہیں۔
یہ تقریب آرٹس ایسوسی ایشن پنجاب کے زیر اہتمام ہونے والی اکیتسویں سالانہ نمائش اور پندرہواں نیشنل شو تھی جس میں چاروں صوبوں کے مراکز کے ساتھ ساتھ دور دراز علاقوں سے بھی نوجوان مصوروں نے شرکت کی۔ میاں اعجاز الحسن کی تقریر میں انکشاف ہوا کہ کئی برسوں سے پاکستان نیشنل کونسل آف آرٹس نے مصوری کی کسی ایک نمائش کا بھی اہتمام نہیں کیا حالانکہ کم از کم ایک سالانہ نمائش کا انعقاد اس کے آئین کے تحت بھی لازمی ہے۔
اب ایک مصور جمال شاہ کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے سو امید رکھنی چاہیے کہ اب صورتحال بہتر ہو گی۔ جہاں تک اس نمائش میں پیش کیے گئے فن پاروں کا تعلق ہے تو ان کو تین کیٹگریز میں تقسیم کرنے کے بعد روایتی طرز کے اول دوم اور سوم انعامات دینے کے بجائے ہر گروپ میں سے پانچ پانچ مصوروں کو انعامی شیلڈز دی گئیں۔ یوں کل ملا کر پندرہ نوجوان مصور لڑکے اور لڑکیاں اعزاز اور حوصلہ افزائی کے حق دار ٹھہرے۔
میں نے اپنی گفتگو میں ادب اور مصوری کے مشترکہ عناصر کے حوالے سے ایک واقعہ بھی سنایا جسے حاضرین نے بہت پسند کیا کہ اس میں فنی حوالے سے اشتراک اور انفرادیت کے ایک ایسے تصور کو اُجاگر کیا گیا تھا کہ جیسے کسی گلدستے کے پھول مل کر ایک شکل تو بناتے ہیں مگر ہر پھول کا اپنا اپنا وجود بھی قائم رہتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہیے کہ ہر فن کے کچھ اپنے ایسے منفرد تقاضے ہوتے ہیںجنھیںکسی اور کسوٹی پر پرکھا ہی نہیںجا سکتا وہ بات کچھ یوں تھی۔
ایک شاعر اور مصور آپس میں گہرے دوست تھے۔ دونوں ایک دوسرے کو اپنی اپنی نئی تخلیقات دکھاتے اور سناتے تھے۔ ایک دن مصور نے شاعر سے کہا کہ میں نے پرانے وقتوں کی جنگ کا ایک میورل بنایا ہے جس میں شاہی ہاتھی کو تیر کھا کر گرتے دکھایا گیا ہے۔ شاعر نے وہ تصویر دیکھی اور کہا کہ تصویر تو بہت اچھی ہے مگر ہاتھی کی سونڈ تم نے کچھ ٹھیک نہیں بنائی۔ میرے خیال میں اس کی ڈرائنگ میں کہیں کوئی غلطی ہے۔
مصور اس وقت توخاموش ہو گیا مگر چند دن بعد اس نے شاعر دوست کو پھر سے بلایا اور کہا کہ میں نے تمہارے مشورے کے مطابق سونڈ دوبارہ سے بنا دی ہے آ کر دیکھ لو… شاعر نے تصویر کو دوبارہ دیکھنا شروع کیا اور بہت دیر تک دیکھتا رہا۔ پھرکہنے لگا یار اب یہ سونڈ ڈرائنگ کے اعتبار سے تو ٹھیک ہو گئی ہے مگر اس کودیکھ کر وہ مزہ نہیں آ رہا جو پہلے آیا تھا۔ اس پر مصور نے مسکرا کر کہا ’’وہ مزا کیسے آئے گا میں جو بیچ میں سے نکل گیا ہوں۔‘‘