counter easy hit

ایک خاتون نے شاندار بات کہہ کر مخالفین کی بولتی بند کروا دی

One woman stopped speaking to the opposition by saying brilliant things

لاہور (ویب ڈیسک) اصل بات وہی ہے جو وزیر اعظم عمران خان اپنے خطاب میں کہہ گئے ہیں۔یعنی یہی کہ کشمیریوں پہ ٹوٹ پڑنے والی قیامت پہ اگر عالمی ضمیر خاموش ہے تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔یہ بات کہنے کے لئے جو ہمت اور حوصلہ درکار ہے اس سے عمران خان نامور خاتون کالم نگار قدسیہ ممتاز اپنے ایک کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ پوری طرح متصف ہیں۔وہ حوصلہ جو ایک مسجد کے خطیب کے پاس وافر ہوتاہے ، ایک اسلامی جماعت کے امیر کے قلب میں ہمہ وقت موجزن رہتا ہے اور ایک اپوزیشن لیڈر کے پاس بھی اس کی کوئی کمی نہیں ہوتی لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کی حیثیت سے ایسی واشگاف حقیقت کا جرات مندانہ اظہار قابل ستائش بھی ہے اور قابل تقلید بھی۔یہی بات اگر عمران خان نے استنبول کے سابق مئیر کی حیثیت سے کی ہوتی تو آج وطن عزیز میں داعیان اسلامی انقلاب اور علمبرداران جہاد نے نعرہ ہائے تحسین در مدح عمران خان میں آسمان سر پہ اٹھا لیا ہوتا لیکن افسوس عمران خان تو اس بدقسمت مملکت خداداد کے سربراہ ہیں جسے ایک فیٹف لاحق ہے ، ایک آئی ایم ایف روگ بن گیا ہے ، جو مبینہ طور پہ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا اور دنیا بھر کی نگاہیں جس کی ایک ایک حرکت پہ مرکوز ہیں۔ عمران خان مغرب کو جتنی اچھی طرح سمجھتے ہیں پاکستان میں شاید ہی کوئی اس گہرائی کے ساتھ سمجھ سکتا ہو۔ میں نے ان کے وہ آرٹیکل پڑھے ہیں جب ان کی تازہ تازہ ماہیت قلب ہوئی تھی اور وہ مغرب کے اطوار سماجیات اور سیاسیات سے بے زار ہوگئے تھے۔اس وقت وہ پاکستان پہ مسلط سیاسی سماجی اور انتظامی اشرافیہ کو براون صاحب لکھا کرتے تھے۔ یعنی ایسے مسلمان اور پاکستانی جو پیدا تو پاکستان میں ہوتے ہیں لیکن پیدائش کے اس حادثے پہ اس درجہ پشیمان ہیں کہ انہیں اپنے درد کا ہر درمان مغرب سے درآمد شدہ مرہم میں نظر آتا ہے۔ مجھے یاد ہے انہوں نے اس مغرب کی جو خواتین سے متعلق حقوق پہ خاص طور پہ حساس نظر آتا ہے، خواتین کے ساتھ غیر انسانی سلوک کا وہ نقشہ کھینچا تھا جو آج کا لبرل طبقہ پڑھ لے تو اس کے چودہ طبق روشن ہوجائیں۔ ان کا ایک فقرہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ انہوں نے لکھا تھا کہ مغرب کی عورت کو اپنے حسن کی پائیداری اور اضافے کے لئے غیر معمولی جتن کرنے پڑتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اسے غیر معمولی طور پہ بے حجاب ہونا پڑتا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ عمران خان کبھی پاکستان کے اس مخصوص طبقے کے لئے قابل قبول نہیں رہے جسے ہم یہاں لبرل کہتے ہیں اور یہ وہی طبقہ ہے جو آج کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی پہ مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے۔ عمران خان نے مغربی جمہوریت کو ہمیشہ آدرشی درجہ دیا۔ اس لئے نہیں کہ وہ سیاسیات میں اس کا بدل کسی کو نہیں سمجھتے، بلکہ اس لیے کہ فی الوقت پاکستان کی بقا اسی میں ہے کہ جمہوریت کا راگ الاپا جاتا رہے۔ اردن کے شاہ حسین کے چھوٹے بھائی حسن بن طلال نہایت عبقری قسم کے کثیر المطالعہ شخص تھے اور اردن کی بادشاہت کے جانشین بھی تھے۔ان سے ایک امریکی نوجوان نے طنزا دریافت کیا کہ وہ اپنے ملک میں بادشاہت ہوتے ہوئے جمہوریت اور روشن خیالی کے حوالے سے اصلاحات کی بات کررہے ہیں ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟انہوں نے رسان سے جواب دیا کہ کیا میں جوابا پوچھ سکتا ہوں کہ جمہوریت کی ماں برطانیہ میں بادشاہت کیوں ہے؟سکنڈے نیویا جو جمہوریت کی معراج پہ ہیں،بادشاہتوں کا کیا کررہے ہیں؟ہمارے خاندان میں بادشاہت ایک ہزار سال سے ہے تو ہم کیوں جمہوری اصلاحات کی بات نہیں کرسکتے؟اس پہ ہال تالیوں سے گونج اٹھا لیکن حسن بن طلال کو بادشاہت نصیب نہ ہوسکی۔ ہم نہ اردن ہیں نہ سعودی عرب ہم لیبیا اور مصر بھی نہیں جہاں آمریت یا بادشاہت کو نظریہ ضرورت کے تحت ہی برداشت کرلیا جائے۔ہم تو وہ قوم ہیں جس کی معیشت کو جونکیں چمٹ گئی تھیں اور جس کے سب سے بڑے مسئلے،مسئلہ کشمیر پہ ستر سالوں سے نظریہ ضرورت کے تحت خسارے کے معاہدے کئے جاتے رہے۔ یہ عمران خان کا حوصلہ ہے کہ وہ اس قوم کو جس سے ڈو مور کیا جاتا رہا، مدینہ کی ریاست بنانے کا دبنگ اعلان کرتے ہیں اور آج تک اس پہ قائم ہیں۔ایک بار پھر کہنے دیں کہ یہ اعلان کسی مسجد کے خطیب،کسی اسلامی انقلاب کی داعی اسلامی جماعت کے امیر یا کسی پابندیوں کا شکار جہادی گروپ کے کمانڈر کا اعلان نہیں، مشکلات میں گھرے ایک ایسے ملک کے وزیر اعظم کا دو ٹوک اعلان ہے جسے ایک فیٹف لاحق ہے، ایک آئی ایم ایف اور جس کی اپوزیشن کشمیر پہ بھی اکٹھی نہیں ہوتی۔ عمران خان نے نیویارک ٹائمز میں آرٹیکل لکھا۔ و ہ اس سے قبل بھی لکھتے رہے ہیں۔ مغرب میں نہ ان کا چہرہ اجنبی ہے نہ قلم کی کاٹ۔ وہ ویسا ہی لکھتے ہیں جیسا کہ بولتے ہیں۔ اگر کسی کو یہ مغالطہ ہے کہ عمران خان نیویارک ٹائمز میں ایک آرٹیکل لکھ کر کشمیر آزاد کروانا چاہتے ہیں تو یہ پھبتی کے طور پہ خوب ہے اور اس سے لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے ۔بات لیکن یہ ہے کہ یہ عمران خان کی کشمیر پالیسی کا وہ حصہ ہے جس کے تحت عمران خان نے ساری دنیا کے میڈیا کو ہڑ بڑا کر بیدار ہونے پہ مجبور کردیا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو وہ یروشلم پوسٹ کی وہ رپورٹ دیکھ سکتا ہے جس میں تاریخ میں پہلی بار مقبوضہ کشمیر کو Indian occupied kashmir کے نام سے پکارا گیا ہے۔عمران خان نے مسئلہ کشمیر کو وہ گیند بنا کر رکھ دیا ہے جو اچھالی تو مودی نے تھی لیکن اب عمران خان اسے زمین پہ گرنے نہیں دے رہے۔ یہ بات بھارت سے زیادہ کون جانتا ہے کہ عمران خان سے زیادہ گیند کو کون سوئنگ کرسکتا ہے اور وہ بھی اس وقت تک جب تک وہ چاہیں ۔ اگر کسی کوعمران خان کی کشمیر پہ آدھا گھنٹہ کال پہ اعتراض ہے توشوق سے ہوتا رہے۔جنہیں کشمیر کے لئے نکلنا تھا وہ نکل چکے۔جنہیں ٹھٹھے اڑانے تھے وہ اڑاتے رہ گئے۔ ساری دنیا میں لیکن پیغام جا چکا کہ یہ آدھا گھنٹہ کسی بھی وقت سارا دن میں تبدیل ہوسکتا ہے۔بھارتی میڈیا اسی بنا پہ شور مچاتا رہا۔ عمران خان وزیراعظم ہی نہیں لیڈر بھی ہیں۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ نوجوان اور ناتجربہ کار ٹیم کے ساتھ دشمن ملک میں اسی کے ہوم گراونڈپہ اسی کو کیسے عبرتناک شکست دی جاسکتی ہے۔ وہ اس وقت کشمیر کے لئے جو کچھ کرررہے ہیں، وہ بظاہر بہت کم معلوم ہوتا ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ عمران خان کے حصے میں جو پاکستان آیا ہے اس میں ڈیمج کنٹرول ہی بڑی کامیابی ہے۔ کشمیر پہ نواز شریف ، مشرف اور زرداری اتنی مجرمانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرچکے تھے کہ اب کشمیر کو عالمی اسٹیج پہ لے آنا عمران خان کی بڑی کامیابی ہے۔آپ یقین کرنا چاہیں تو کرلیں کہ یہ اس سلسلے کا محض پہلا فیز ہے۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website