باچا خان یونیورسٹی چارسدہ پر دہشت گردوں کے حملے کو ایک سال بیت گیا لیکن زخم آج بھی تازہ ہیں۔
20 جنوری 2016 کی صبح چارسدہ شدید دھند کی لپیٹ میں تھا۔ امن اور علم کے دشمنوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور 9 بج کر 58 منٹ پر یونیورسٹی پر حملہ کردیا۔دہشت گرد مشرقی دیوار پر لگے خاردار تاروں کو کاٹ کر یونیورسٹی کے اندر داخل ہوئے۔خودکار اسلحہ اور دستی بموں سے لیس چاروں دہشت گردوں نے پہلے ریسٹ ہاؤس میں داخل ہوکر کئیر ٹیکر فخر عالم کو شہید کر دیا۔بس اسٹینڈ پر مامور سیکورٹی گارڈ نے دہشت گردوں کو للکارا تو وہ بھی فائرنگ سے زخمی ہوگیا۔ فائرنگ کی آواز سن کر قریبی آبادی کے لوگ بھی سیکورٹی گارڈز کی مدد کیلیے پہنچ گئے۔حملہ آور جب اپنے ہدف تک پہنچنے میں ناکام ہوئے تو پلان بی کے تحت بوائز ہاسٹل نمبر 1 میں داخل ہوئے اور کشت و خون کا بازار گرم کر دیا۔ دہشت گردوں کے یونیورسٹی پر حملے کے 35 منٹ بعد مقامی پولیس موقع پر پہنچ گئی جبکہ مردان اور پشاور سے پاک فوج کے کمانڈوز اور کوئیک ریسپانس کے دستے ایک گھنٹے میں یونیورسٹی پہنچ گئے۔دہشت گردوں نے 14 طلبہ اور ایک پروفیسر سمیت 18 بے گناہوں کو شہید اور 22 کو زخمی کر دیا۔ دہشت گردوں نے خودکار اسلحہ سے فائرنگ کےساتھ 8 دستی بم دھماکے بھی کیے۔آرمی کمانڈوز اور کوئیک ریسپانس فورس کے دستوں نے آپریشن کر کے چاروں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا۔واقعے کے ٹھیک چار دن بعد 25 جنوری کو سیکورٹی فورسز نےضلع مردان کے دو مختلف علاقوں میں کارروائی کرتے ہوئے دہشت گردوں کے پانچ سہولت کاروں ریاض، ضیاء، عادل، نور اللہ اور ابراہیم کو گرفتار کر لیا۔ گرفتار سہولت کاروں نے دوران تفتیش اعتراف جرم کر لیا تھا۔