گھر سے معاشرہ تک محیط خواتین کے کردار کو فراموش کرنے والی اقوام اپنی نسلوں کی مثالی تربیت سے نا صرف محروم رہتی ہیں بلکہ ملکی پیداواری وسائل سے بھی پوری طرح استفادہ نہیں کر پاتیں۔ نتیجتاً گھر اور معاشرہ دونوں پوری طرح پنپ نہیں پاتے اور جہالت، غربت، اموات، صحت کے مسائل، تشدد، یک شخصی فیصلوں اور ان جیسے بیسیوں مسائل کا شکار رہتے ہیں۔
2007ء میں دنیا کی شہری اور دیہی آبادی کے برابر ہونے کے بعد شہری آبادی کے تناسب میں اضافہ ہنوز جاری ہے۔ لیکن دیہی آبادی آج بھی قابلِ ذکر تناسب کی حامل ہے اور اس میںخواتین کا تناسب بھی تقریباً50 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ جن کے دیہی معاشرت میں نمایاں کردارکا اعتراف کرنے اور اُن کو درپیش مشکلات کے ازالہ کی جانب عام اور خواص کی توجہ مبذول کروانے کے لئے اقوام متحدہ ہر سال 15 اکتوبر کو دیہی خواتین کا بین الاقوامی دن منا تا ہے۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں ابھی بھی شہری کی نسبت دیہی آبادی کا تناسب زیادہ ہے۔ اور لوگوںکی اکثریت دیہی علاقوں میں آباد ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز اسلام آباد کے اعدادو شمار کے تجزیہ کے مطابق2015 ء تک پاکستان کی 58.80 فیصد آبادی دیہات میں مقیم تھی۔ جبکہ ملک میں خواتین کی آبادی کی صورتحال کی اہمیت اس اعتبار سے دوچند ہے کہ دنیا بھر میں خواتین کی چھٹی بڑی تعداد پاکستان میں موجود ہے۔اور ملکی آبادی کا 48.35 فیصد خواتین پر مشتمل ہے جبکہ ملکی خواتین کا 59.21 فیصد دیہات میں آباد ہیں۔
پاکستان میں سب سے زیادہ فاٹا کی 95.97 فیصدخواتین دیہی علاقوں میں آباد ہیں۔دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا ہے جہاں خواتین کی مجموعی تعداد کا 76.65 فیصددیہی علاقوں میں سکونت پذیر ہے۔ اس کے بعد صوبہ بلوچستان ہے جہاں 64.12 فیصدخواتین دیہی علاقوںمیں آباد ہیں۔ پنجاب کی کل خواتین کا 60.31 فیصددیہی علاقوں میں مقیم ہے۔ جبکہ سندھ کی 41.79 فیصد اور اسلام آباد کی24.62 فیصد خواتین دیہی علاقوں کی مکین ہیں۔
پاکستان میں دیہی خواتین کی آبادی کو نمایاں کرتے یہ اعدادوشمار یقیناً اس بات کے متقاضی ہیں کہ اُن کو مساوی حقوق ملنے چاہئیں۔ کیونکہ دیہی خواتین اپنے گھروں اور کمیونٹیز کی خوراک اور غذائی سکیورٹی کے حصول کے علاوہ آمدن میں اضافہ، بہتر دیہی طرز زندگی اور عمومی فلاح و بہبود میں بھرپور معاونت کرتی ہیں۔ زراعت اور دیہی صنعت میںسرگرم کردار ادا کرتی ہیں اور مقامی اکانومی کو تقویت مہیا کرتی ہیں۔ لیکن شہری خواتین اور مردوں کی نسبت انھیں زیادہ وقت پیداواری عمل اور گھریلو کام کاج میں صرف کرنا پڑتا ہے۔ مثلاً پانی لانے اور ایندھن میں، بچوں اور بیماروں کی دیکھ بھال اور کھانا بنانے میں وہ زیادہ وقت خرچ کرتی ہیں۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ ہمارے دیہات میں سہولیات کی کمی اور کمزور انفراسٹریکچرخواتین پر بوجھ کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
اس کے علاوہ ثقافتی طور پر خواتین کی متعین شدہ ذمہ داریاں اُن کے روزگار کے مواقعوں کو محدود کردیتی ہیں۔ یعنی ہر روز ہماری دیہی خواتین اور لڑکیوں کو بہت سی ایسی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو اُنھیں اپنے انسانی حقوق سے استفادہ کرنے سے روکتی ہیں۔ اور اپنے معیار ِزندگی کو بہتر بنانے کے لئے اُن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتی ہیں۔
دیہی سطح پر خواتین کی تعلیمی صورتحال صنفی عدم مساوات کی بہت بہتر طور عکاسی کرتی ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کے پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میئرمنٹ سروے 2014-15 کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں کی صرف 40 فیصد خواتین نے اپنی زندگی میں سکول حاضری دی ہے۔ اور صرف 31 فیصد نے پرائمری تعلیم یا اس سے زائد حاصل کر رکھی ہے۔ صورتحال کی سنگینی کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ملک کے دیہی علاقوں کی 5 سے9 سال کی عمر کی صرف48 فیصد بچیاں پرائمری اسکولوں میں داخل ہوتی ہیں۔ جبکہ 10 سے12 سال کی عمر کی محض15 فیصد بچیاں مڈل اسکولوں کا رخ کرتی ہیں۔
میٹرک تک تو یہ شرح مزید کم ہو جاتی ہے کیونکہ13 سے 14سال کی عمر کی صرف 9 فیصد لڑکیاں میٹرک کی سطح کے اسکولوں میں داخل ہوتی ہیں۔ اس تمام تر صورتحال کا حاصل یہ ہے کہ پاکستان میں10 سال اور اس سے زائد عمر کی دیہی خواتین میں خواندگی کی شرح محض 38 فیصد ہے۔ بلوچستان میں یہ شرح تو صرف17 فیصد اور سندھ میں 24 فیصد ہے۔ جبکہ خیبر پختونخوا کی دیہی خواتین میں خواندگی کا تناسب31 فیصد اور پنجاب میں45 فیصد ہے۔
پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میئرمنٹ سروے 2013-14 دیہی لڑکیوں کے کبھی بھی اسکول نہ جانے کے حوالے سے جو حقائق سامنے لاتا ہے اُس کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں کی10 سے18 سال کی39 فیصد لڑکیاں والدین کی اجازت کے نہ ہونے کو اسکول نہ جانے کی بڑی وجہ قرار دیتی ہیں۔ جبکہ 14 فیصد تعلیم کے مہنگا
ہونے اور 11 فیصد اپنی مرضی کے نہ ہونے کو اسکول نہ جانے کی وجہ ٹھہراتی ہیں۔
بین الاقوامی تحقیق سے اگرچہ یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ایسی خواتین جو تعلیم یافتہ ہیں وہ زیادہ صحت مند، زیادہ آمدن کی حامل اور گھریلو سطح پر فیصلہ سازی میں زیادہ با اختیار ہوتی ہیں۔ جبکہ پرائمری اسکول کے ہر اضافی سال کی تعلیم لڑکیوں کی تنخواہ میں10 سے20 فیصد اضافہ کا باعث بنتی ہے۔ اس کے علاوہ لڑکیوں کی کم عمری میں شادیوں کی حوصلہ شکنی اور بچوں کی پیدائش میں وقفہ اور بچوں کی کم تعداد میں پیدائش کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ اور لڑکیوں پر تشدد کے امکانات کو بھی کم کرتی ہے۔ خواتین کی تعلیم بچوں کے پانچ سال اور اس کے بعد تک زندہ رہنے کے حوالے سے بنیادی محرک کا کام کرتی ہے۔ بچوں کی زندگی کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے ہیں اگر ماں سیکنڈری یا اس سے زائد تعلیم کی حامل ہو۔
ہماری دیہی خواتین کی تولیدی صحت کا شعبہ اس وجہ سے بھی اہمیت اختیار کر جاتا ہے کہ پاکستان کہ دیہی علاقوں میں 15 سے 49 سال کی شادی شدہ خواتین کا تناسب 68 فیصد ہے اور صوبوں کی سطح پر تو یہ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ مثلاً بلوچستان کے دیہات میں یہ تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے جہاں 74 فیصد مذکورہ عمر کے گروپ کی خواتین شادی شدہ ہیں۔ اس کے بعد سندھ کا نمبر ہے جہاں یہ تناسب 73 فیصد ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں یہ تناسب 67 فیصد فی کس ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں 15 سے 49 سال کی خواتین کے بچوں کی فی کس اوسط تعداد 4.3 ہے۔ فی خاتون بچوں کی اتنی تعداد کی ایک بڑی وجہ خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوںکے استعمال کی کم شرح کا ہونا ہے۔
اس وقت ملک کے دیہی علاقوں میں 27 فیصد شادی شدہ خواتین خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کا استعمال کرتی ہیں۔ اب زیادہ بچوں کی تعداد کا مطلب ہے زیادہ بار زچگی کے مراحل سے گزرنا، یوں دیہی خواتین کے لئے تولیدی صحت کا شعبہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ لیکن خواتین کی اپنی تعلیمی محرومی اور اُن سے وابستہ مرد رشتہ داروں کی تعلیم سے دوری اور فرسودہ ثقافتی روایات سے جڑے رہنے کے باعث ہمارے دیہات میں خواتین کی تولیدی صحت دگرگوں صورتحال کی حامل ہے۔ حمل کے دوران اور بعد از چگی خواتین کا میڈیکل چیک اپ بہت اہمیت کا حامل ہے۔
ماہرین کے مطابق ایسا کرنے سے خواتین کو حمل کے دوران، زچگی کے وقت اور اس کے بعد کی پیچیدگیوں اور خطرات کی علامات سے آگاہ ہونے، حفاظتی ٹیکوں، خوراک، احتیاطی تدابیر، بچے کی دیکھ بھال اس کی خوراک اور صحت کے بارے میں مفید معلومات ملتی ہیں اس کے علاوہ زچہ و بچہ میں کسی قسم کی پیچیدگی کا ناصرف بروقت پتہ چل جاتا ہے بلکہ اس کے علاج اور احتیاط کے ساتھ ساتھ بچے کی نگہداشت کے بارے میں ضروری ہدایات بھی مل جاتی ہیں اس سلسلے میں عالمی ادارہ صحت کسی بھی خاتون کو نارمل صورتحال میں Prenatal Care کے حوالے سے 4 بار چیک اپ کا مشورہ دیتا ہے۔
پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میئرمنٹ سروے 2014-15 کے مطابق دوران حمل اور بعد از زچگی دیہی خواتین کے چیک اپ کی شرح بالترتیب 67 اور 25 فیصد ہے۔ اسی طرح حاملہ خواتین میں تشنج سے بچاؤ کے ٹیکوں کی شرح 70 فیصد ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور پہلو توجہ طلب ہے کہ ملک کے دیہی علاقوں میں زچگی کے 55 فیصد کیسز گھروں پر ہی ہوتے ہیں۔ بلوچستان کے دیہات میں یہ تناسب 71 فیصد تک ہے جوکہ ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ سندھ 62 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں یہ شرح51 فیصد فی کس ہے۔
اگر ہمارے کرتا دھرتاخواتین کی تولیدی صحت کے شعبے میں سنجیدہ دلچسپی لیتے اور اسے اولین فوقیت دیتے تو پھر پاکستان کے دیہی علاقوں میں زچگی کے فی لاکھ کیسز کے دوران 319 خواتین ایک نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی نہ ہارتیں۔ اور شہری علاقوں کی 175 خواتین زچگی کے فی لاکھ کیسز کے دوران اس دنیا سے اپنا ناطہ نہ توڑتیں۔ پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2006-07 کے یہ اعداد و شمار پاکستان میں زچہ کی تولیدی صحت کی جس تصویر کو ہمارے سامنے لارہے ہیں اس کی دیہی اور شہری تفریق اس امر کی وضاحت کر رہی ہے کہ ہمارے ملک کے دیہی علاقوں میں زچگی کے دوران خواتین کی اموات شہری علاقوںکی نسبت تقریباً دگنا ہے۔ جو یہ سوال اٹھا رہی ہے کہ ہمارے دیہی علاقوںمیں زچگی کا عمل کتنا محفوظ ہے؟
دیہی بچوں کی صحت اور غذائیت دیہی خواتین کی ناخواندگی کا اگلا شکار بنتی ہے۔کیونکہ خواندہ ماں کے بچے زیادہ صحت مند اور اموت کے امکانات سے دور ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ترقی پذیر ممالک کے دیہی علاقوں کے پانچ سال سے کم عمر بچے شہری علاقوں کے بچوں کی نسبت 1.4 گنا زیادہ اموات کا شکار ہونے کے امکانات میں مبتلا رہتے ہیں۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں بچوں کی صحت کے منظر نامہ کی ایک جھلک پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرز میئرمنٹ سروے 2014-15 کے مطابق کچھ یوں ہے کہ ملک کے 12 سے 23 ماہ کی عمر کے 56 فیصد دیہی بچے ریکارڈ کے مطابق حفاظتی ٹیکوں سے مستفید ہو پاتے ہیں۔ جبکہ بچوں کی غذائی صورتحال قومی غذائیت سروے 2011 ء کے مطابق کوئی اتنی حوصلہ افزا نہیں کیونکہ سروے کے مطابق پاکستان کے 61.4 فیصد دیہی بچے خون کی کمی کا شکار ہیں۔
اس کے علاوہ 46.3 فیصد بچوں کا قد اُن کی عمر کے اعتبار سے کم ہے۔ 33.3 فیصد کا وزن اُن کی عمر لحاظ سے کم ہے اور 16.1 فیصدکا وزن اُن کے قد کے مقابلے میں کم ہے۔ اس کمزور صحت کا حاصل زیادہ بیماریوں اور زیادہ اموات کی صورت میں دیہی علاقوں کے بچوں سے اپنا خراج وصول کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان کے دیہی
علاقوں میں پانچ سال سے کم عمر بچوں کی اموات 106 فی ہزار ہے۔
دیہی خواتین کی تعلیم سے دوری کا اگلا حاصل اُن کی آمدن کے محدود ذرائع اور فیصلہ سازی کے عمل میں اُن کی محدود شرکت کی صورت میں نکلتا ہے۔کیونکہ ایک وسیع تر تحقیق کے مطابق خواتین کے ہاتھوں میں زیادہ آمدن دینے سے بچوں کی غذائیت، صحت اور تعلیم پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دیہی خواتین مردوں کی نسبت زرعی اور غیر زرعی تنخواہ دار روزگار میں کم شامل ہیں۔ جبکہ وہ دیہی معیشت میں بھر پور طریقے سے سرگرم ہیں۔ اگر وہ تنخواہ دار کے طور پر کام کرتی ہیں تو وہ اکثر پارٹ ٹائمر کے طور پر روزگار حاصل کرتی ہیں یا پھر موسمی اور کم اجرتی ورکر کے طور پر۔
پاکستان کی دیہی خواتین کے روزگار کی صورتحال پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے2012-13 یوں بیان کرتا ہے کہ 15 سے49 سال کی شادی شدہ خواتین کا 30.2 فیصد ملازمت کرتا ہے۔ اور47.1 فیصدزراعت کے پیشے سے منسلک ہے جس کے 28.8 فیصد کو کام کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ اور جن کو اُجرت حاصل ہوتی ہے وہ اسے خرچ کرنے میں کتنی با اختیار ہیں اس کی صورتحال سروے کے مطابق کچھ یوں ہے کہ دیہی علاقوں کی ملازمت پیشہ خواتین کے47.2 فیصد کو اپنی آمدن کے خرچ کرنے کے بارے میں تنہا فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ جبکہ گھریلو سطح کے فیصلہ سازی کے عمل میں دیہی خواتین کی شرکت کا اندازہ ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے کہ 47.5 فیصد 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے حوالے سے خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
اس کے علاوہ 42.9 فیصد کو گھریلو استعمال کی بنیادی اشیاء کی خریداری کے فیصلہ کا اختیار حاصل ہے۔ رشتہ داروںکی طرف جانے کے حوالے سے تنہا فیصلہ کا اختیار45.8 فیصد کو حاصل ہے جبکہ ان تینوں طرح کے فیصلوں کے تنہا اختیار کی مجموعی شرح 34.5 فیصد ہے۔ دیہی خواتین کے ملکیتی حقوق کی صورتحال بھی توجہ طلب ہے۔ صرف 1.5فیصد شادی شدہ خواتین گھر کی ذاتی حیثیت میں مالک ہیں۔ جبکہ 2 فیصد زمین کی تنہا مالکن ہیں۔
دیہی خواتین کی خواندگی سے دوری کا ایک اور منفی اثر اُن پر تشدد کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس امر کی تائید عالمی ادارہ صحت کی ایک کثیر ملکی تحقیق بھی کر رہی ہے جس کے مطابق دیہی خواتین شہری کی نسبت زیادہ جسمانی تشدد کا سامنا کرتی ہیں۔ پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین پر تشدد کی صورتحال کی عکاسی کرتے ہوئے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پاپولیشن اسڈیز کا پی ڈی ایچ ایس2012-13 بتاتا ہے کہ 15 سے 49 سال کی عمر کی شادی شدہ خواتین کا 34 فیصد 15سال کی عمر سے جسمانی تشدد کو برداشت کر رہا ہے۔ جبکہ جسمانی اور جذباتی تشدد برداشت کرنے والی خواتین کی شرح 41.6 فیصد ہے۔ تشدد کو سہنے والی خواتین کا 51.5 فیصد اپنے پر ہونے والے تشدد کے حوالے سے کبھی بھی مدد کے لئے کسی کو نہیں پکارتا دوسرے الفاظ میں چپ سادھ لیتا ہے۔
پاکستانی دیہی خواتین کی حالتِ زار کو متاثر کرنے میں دیہی علاقوں میں موجود کمزور انفراسٹرکچر اور سہولیات کا فقدان بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ تعلیم سے دیہی خواتین کی دوری میں جہاں سماجی رویئے بڑی رکاوٹ ہیں۔ وہیں ناکا فی تعلیمی سہولیات اس رکاوٹ کو پہاڑ بنارہی ہیں۔ مثال کے طور پر تحقیق کے مطابق ملک میں لڑکیوں کے اسکولوں کے فاصلے میںآدھے کلومیٹر کا اضافہ لڑکیوں کے داخلوں میں20 فیصد کمی کردیتا ہے۔ ہمارے دیہات میں ناکافی تعلیمی سہولیات نا جانے کتنے ہی کلومیٹر فاصلے میں اضافہ کا باعث بنتی ہیں اور کتنی ہی بچیاں ان مسافتوں کو عبور کرنے کی سکت نہ رکھنے کی وجہ سے تعلیمی عمل کا حصہ نہیں بن پا رہی ہیں۔
وزارت ِ وفاقی تعلیم اور پروفیشنل ٹریننگ کے نیشنل ایجوکیشن مینجمنٹ انفارمیشن سسٹم کی رپورٹ پاکستان ایجوکیشن اسٹیٹیسٹکس2014-15 کے مطابق ملک کے دیہات میں پری پرائمری اسکول سے ڈگری کالجز تک پبلک و پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار 4 سو 6 ہے۔ جس کا 33.48 فیصد لڑکیوں کے اور 19فیصد مخلوط تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے۔ اسی طرح دیہات میں موجود صحت کی سہولیات کا کمزور اور ناکافی انفراسٹرکچراور وہاں فراہم کی جانے والی خدمات کا معیار تمام آبادی خصوصاً خواتین اور بچوں کی صحت کی ضروریات کی تکمیل سے قاصر ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے Compendium on Gender Development Statistics of Pakistan 20 14 کے مطابق ملک کے دیہات میں 2013 تک دستیاب تمام طرح کی طبی سہولیات ( ہسپتال، ڈسپینسریز، ٹی بی سینٹرز، ماں بچہ کی صحت کے مراکز، دیہی مراکز صحت اور بنیادی مراکز صحت) کی تعداد صرف 9 ہزار 7 سو 68 تھی۔ جبکہ ان سہولیات میں موجود بستروں کی تعداد21 ہزار ایک سو 43 تھی۔ 58 فیصد ملکی آبادی کے لئے صحت کی دستیاب اتنی سہولیات کمزور دیہی انفراسٹرکچر کی واضح علامت ہیں۔ اس پر سونے پہ سہاگہ ان سہولیات میں موجود طبی عملے کی تعداد اور دستیاب ادویات اور طبی آلات اس کمزور شعبہ کو اور کمزور تر کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں پینے کے پانی اور کھانا پکانے کے لئے ایندھن کا حصول بھی ہمارے دیہات میں موجود سہولیات کے فقدان کی قلعی کھول رہے ہیں۔ پی ایس ایل ایم2014-15 کے مطابق دیہات کے 38 فیصد گھروں کو پانی کے حصول کے لئے ہینڈ پمپ پر اکتفا کرنا پڑتا ہے جس کے ذریعے پانی کا حصول ایک مشقت طلب اور وقت لینے والا عمل ہے اور اکثر خواتین ہی کو یہ مشقت اٹھانی پڑتی ہے۔ جہاں تک کھانا پکانے کے لئے ایندھن کی دستیابی کی صورتحال ہے تو اس حوالے سے سروے کے اعداد وشمار یہ بتاتے ہیں کہ ملک کے دیہات کے 73.37 فیصد گھرانوں میں کھانا پکانے کے لئے لکڑیوں کا استعمال کیا جاتا ہے اور لکڑی کا حصول بھی دیہی خواتین کی روز مرہ ذمہ داریوں کا ایک حصہ ہے۔ جس پر وقت اور توانائی دونوں بڑی مقدار میں صرف کرنا پڑتے ہیں۔
دیہی گھرانوں میں موجود ایک ایسی سہولت جس کی عدم دستیابی خواتین خصوصاً لڑکیوں اور بچوں کے تقدس اور تحفظ کو خطرات کے امکانات سے دوچار کر دیتی ہے۔ سروے کے مطابق پاکستان کے دیہی علاقوں کے21 فیصد گھروں میں بیت الخلاء کی سہولت موجود نہیں جس کی وجہ سے دیہی آبادی کے ایک بڑے حصہ کو کھلی جگہوں پر رفع حاجت کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے یہ امر نہایت اہم ہے کہ پاکستان کے ہر گھر میں بیت الخلاء کی سہولت موجود ہو۔
وطن عزیز کے دیہی علاقوںکی پسماندگی اور وہاں کی عوام خصوصاً خواتین کی حالت زار چیخ چیخ کر میڈیا کو اپنی جانب متوجہ کررہی ہے۔ لیکن میڈیا عصمت دری، خواتین پر تشدد اور غیرت کے نام پر قتل کی خبروں کو چٹخارہ دار بنا کر تو پیش کرتا ہے۔ لیکن دیہی خواتین کے حقوق، پسماندگی، کمزور انفراسٹرکچر، سہولیات کی محرومی اور فرسودہ سماجی روئیوں کو اپنے مندرجات کا حصہ کم ہی بناتے ہیں۔ کیونکہ کمرشلزم کی اس دوڑ میں ہمارا میڈیا ( خصوصاً الیکٹرانک) پبلک سروس، پبلک براڈ کاسٹنگ اور سماجی ذمہ داری سے کافی ہٹ چکا ہے۔
ڈراموں کے موضوعات کی اکثریت پیار محبت اور رقابت کے گردگھومتی ہے۔ جب کہ ٹاک شوز کے موضوعات پر سیاست کی اجارہ داری ہے۔ خبریں زیادہ تر بیانات پر مبنی ہوتی ہیں۔ بریکنگ نیوز کی دوڑ میںلگے چینلز بعض اوقات صحافتی اخلاقیات اور معیار کی دھجیاں تک اڑا دیتے ہیں۔ ایک عجب ہنگامہ سا برپا ہے۔ زیادہ ناظرین، سامعین اور قارئین کا دعویٰ کرتے میڈیا آوٹ لیٹس اس حقیقت کو فراموش کئے ہوئے ہیں کہ پاکستان کی آبادی کی ایک بڑی تعداد گاؤں کی خواتین پر مشتمل ہے۔ جنہیں الیکٹرانک میڈیا کی ٹرانسمیشن کو دیکھنے، نشریات کو سننے اور اخبارات کے پڑھنے کی بھی سہولت نہیں۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے 2012-13 کے مطابق ملک کے دیہی علاقوں کی 15 سے 49 سال کی شادی شدہ خواتین کے63.2 فیصد کو ذرائع ابلاغ ( اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو) تک رسائی حاصل نہیں۔ جبکہ صرف 1.7 فیصد اخبارات کی قاری اور 2.4 فیصد ریڈیو کی سامع ہیں اور 35.3 فیصد ٹی وی دیکھتی ہیں۔ میڈیا کے ذرائع کی دیہی خواتین تک محدود پہنچ بہت سے سوالات کو جنم دیتی ہے جو میڈیا کے مندرجات سے لیکر میڈیا سے وابستہ اُس نام نہاد خوف تک پھیلے ہوئے ہیں جو دیہی معاشروں میں خواتین کا میڈیا کے ذرائع تک رسائی پانے کے بعد اُن کے باغی بن جانے کی سوچ سے جڑے ہوئے ہیں۔
اگر ہم نے واقعی ترقی کی دوڑ میں شامل ہونا ہے تو ہمیں اپنی دیہی خواتین کی صورت میں موجود انسانی وسیلہ سے بھرپور استفادہ کرنے کے لئے ان کی تعلیم کے دروازوں کوکھولنا ہو گا۔کمزور دیہی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانا ہو گا اور سب سے بڑھ کر اپنی سوچ کو بدلنا ہوگا۔تب ہی ترقی اورخوشحالی کی سحر طلوع ہو سکے گی۔