بیت اللہ محسود اور حکیم اللہ محسود کے وارثوں کے نام!
پاکستان کے خلاف بھارتی پراکسی وار کا مرکز بننے والی افغان حکومت کے چہیتوں کے نام!
شامی حکومت پر کیمیائی حملوں کا بے بنیاد الزام لگا کر درجنوں میزائل داغنے والے نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کے حمایت یافتہ احتجاجیوں کے نام!
غزہ کی پٹی پر قیامت برپا کرنے والے اسرائیل کے سرپرست اعلیٰ اور مشکوک دماغی صحت والے امریکی صدر کے پیاروں کے نام!
قومی اسمبلی میں فاٹا کے حق پر ڈاکہ مارنے والے محمود خان اچکزئی کے بغل میں بیٹھنے والوں کے نام!
مادروطن پر جان وارنے والے دھرتی کے بہادر سپوتوں کی عظیم قربانیوں کو گالی دینے والوں کے نام!
میرا تعلق پاکستان سے ہے۔ میں بغیر کسی لسانی، مذہبی اور نسلی تفریق کے پاکستانی ہوں۔ میرا اول پاکستان ہے، میرا آخر پاکستان ہے۔ میرے بڑوں نے اسی نام پر جان و مال کی قربانی دی اور ہجرت کی صعوبتیں اٹھائی۔ وطن سے وفاداری میرے ڈی این اے میں شامل ہے۔ بے شک یہ ایک بہت حساس اور اہم معاملہ ہے۔ میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ سائنس اس کی تصدیق کر چکی ہے کہ انسانی خصلت میں اس کے آبائواجداد کی عادات شامل ہوتی ہیں۔ وفاداری کا تعلق عین ڈی این اے سے ہے۔ اب مشکوک ڈی این اے والوں سے وفاداری کی توقع سائنس کے اصولوں کے خلاف ہے اور کسی وفادار کے ملنے کے امکانات فیصداَ بہت کم ہیں۔
بات وردی کو گالی دینے والوں کی ہے، تم جو گالی سے کم بات نہیں کرتے، ابھی کل کی بات ہے تمہارے بڑے اور چھوٹے پورے ملک میں جگہ جگہ بم باری کرتے تھے، تم جو آج اونچے سٹیج پر چڑھ کر دشمن کی زبان بولتے ہو اور وردی کو گالی دیتے ہو ابھی کل کی بات ہے تمہارے بڑے اونچے پہاڑوں کے پیچ دار غاروں سے نکل کر وردی والوں پر گولیاں برساتے تھے۔
ماضی تکلیف دہ ہے۔ تم بھی جانتے ہو اور ہم بھی جانتے ہے، تم نے بھی گزارا ہے، ہم پر بھی بیتا ہے۔ میں کوئی فرق نہیں کرنا چاہتا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ میری طرح تمہیں بھی آزادی سے جینے کا پورا حق ہے لیکن ایک بات مجھے کھٹکتی ہے کہ تم بھی پاکستانی ہو، تو پاکستان کے ہیرو تمہارے ہیرو کیوں نہیں؟ تم جن کو پیارے ہو یا جو تمہیں پیارے ہیں وہ تو ہمارے ہیرو نہیں۔
کیا تم نے نہیں دیکھا تھا جب تم لاہور کے گلی کوچوں میں وردی کو گالی دیتے پھر رہے تھے تو لاہور کے ریلوے سٹیشن کے قریب قائم لنڈا بازار میں میرے سینکڑوں پاکستانی پختون بھائی پر امن طریقے سے کاروبار زندگی میں مگن تھے۔ انہیں پاکستان سے کوئی گلہ نہیں تھا، گلہ تھا تو صرف اپنے آپ سے کہ پاکستان کو بدنام کرنے والے ان کا نام استعمال کر رہے ہیں اور وہ کچھ نہیں کرسکتے۔
میں یہ نہیں کہتا کہ تم درست نہیں ہو لیکن تم جو گالی دیتے ہو یہ درست نہیں۔ تمہارے مطالبات کی تائید کرتا ہوں لیکن گالی برداشت نہیں۔ تم جو وردی کو گالی دیتے ہو تو تمہارے مغربی مددگار گالی کی خبر بناتے ہیں۔ تمہارے مطالبات تو خبر کے کسی آخری حصے میں درج کیے جاتے ہیں۔ جو واضح ثبوت ہیں کہ تم اپنے مطالبات کی اہمیت گھٹا رہے ہو۔
تم کہتے ہو کہ وفاقی زیرِ انتظام قبائلی علاقوں میں فرنٹیئر جرم (ایف سی آر) کے قوانین کا خاتمہ ہو تو پھر جس محمود خان اچکزئی کی گود میں بیٹھ کر تم وردی کو گالی دیتے ہو، پہلے اس کی قومی اسمبلی کی تقاریر بھی سنو۔۔۔ تم جو لاپتہ افراد کی رہائی مانگتے ہو، اس سے میں بھی متفق ہوں لیکن گالی دینے سے پہلے اپنے حق میں ٹویٹ کرنے والی اور احتساب عدالت میں نامزد مجرم مریم نواز کے چار مرتبہ نااہل ہونے والے پاپا، ان کی حکومت اور وزارت داخلہ کا گریبان پکڑو، وردی کو گالی مت دو۔
یہ جو تم کہتے پھرتے ہو کہ سیکیورٹی چوکیوں پر ذلت کی روک تھام ہو، تو لاہور کے جلسے میں تلاشی لے کر شرکاء کو احتجاجی پنڈال میں داخل کرنے والوں، تلاشی دینے سے کسی کی شان کم نہیں ہوتی۔ شاید جہاں میں ہوں یہاں کے حالات مختلف ہیں اور تلاشی سے متعلق میرا نظریہ یہاں کے حالات کے تناظر میں ہے لیکن اگر اس مطالبے کو سنجیدہ مان بھی لیا جائے تو زرا اپنے گریبان میں جھانک کر بتاؤ کہ تم پاکستان کے دیگر حصوں میں امن کی ضمانت دیتے ہو؟
تم جو خود کو پاکستانی سے پشتون اور محسود کی اکائی میں خود ہی تقسیم کرتے ہو، کیا تم بتا سکتے ہو کہ فاٹا کی ایجنسی پارا چنار میں کوئی ہراساں کیوں نہیں ہوتا؟ وجہ یہ ہے کہ پارا چنار والوں نے ان کا مقابلہ کیا ہے جن کو تم نے پناہ دی اور جن کے تم سہولت کار بنے۔ وردی کو گالی دینے سے پہلے اپنے بڑوں کے کردار پر غور کرو اور ان کی قبروں کو کوسو۔ تم جو تمام سیاسی قیدیوں کی رہائی اور دیگر الزامات کے تحت گرفتار کیے گئے افراد کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہو تو سنو تمہارے مطابق سیاسی قیدی حقیقت میں دہشتگرد ہیں۔
مختصر یہ کہ وردی کو گالی مت دو۔ اپنے گریبانوں میں جھانکو اور سوچو کہ جن کے اشاروں پر تم شعلہ بیانیاں کرتے پھرتے ہو، انہوں نے تم سے پہلے والوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ وردی کو گالی قابل برداشت نہیں۔۔۔ فی امان اللہ!