شہباز شریف گزشتہ روز ن لیگ کے بلامقابلہ صدر منتخب ہوئے تو اپنی تقریر میں پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی بات کی جس پر مجھے اُسی طرح ہنسی آ ئی جیسے پی پی پی کے چیئرمین بلاول زرداری بھٹو نے چند روز قبل راجہ ظفر الحق کو جنرل ضیاء مرحوم کا اوپننگ بیٹسمین کہہ کر چیئرمین کے عہدے کے لیے نامناسب قرار دے دیا۔ سیاست بھی عجیب کھیل ہے جس میں سیاستدان اور حکمران عوام کو بیوقوف سمجھتے بھی ہیں اور انہیں بار بار بیوقوف بنانے کی کوشش میں ایک دوسرے سے آگے بھی نکلنے کی دوڑ میں شامل رہتے ہیں۔ ورنہ جو شہباز شریف صاحب نے کہا اُس بارے میں اگر وہ خود یا اُن کی پارٹی زرہ برابر بھی مخلص ہوتی توپاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لئے گزشتہ 30 سالوں کے دوران اپنے ادوار حکومت میں بہت کچھ کیا ہوتا۔ گزشتہ نو سال سے تو شہباز شریف کی پنجاب حکومت کے ساتھ ساتھ گزشتہ چار سال سے ن لیگی وفاقی حکومت تو اپنے آپ کو ایک لبرل اور سیکولر پارٹی بنانے کی جتن کرتی نظر آئی ہے اور کسی ایک موقع پر بھی نہ میاں نواز شریف اور نہ ہی شہباز شریف نے اسلامی فلاحی ریاست کی بات کی بلکہ یہ دونوں لبرل اور ترقی پسند پاکستان کی بات ضرور کرتے رہے۔ اب کیسے مان لیا جائے کہ ماضی میں بار بار حکومت ملنے پر جو ن لیگ نے پہلے بھی وعدہ کر کے نہ کیا وہ اب کرلیں گے۔ مرحوم قدرت اللہ شہاب اپنی مشہور تصنیف شہاب نامہ میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جو اُس دھوکہ سے متعلق ہے جو اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کے قیام کے وقت سے جاری و ساری ہے۔ شہاب صاحب لکھتے ہیں : ’’ (1948کی) جنگ بندی کا اعلان ہوتے ہی مرکزی وزرائے کرام نے جان کی امان پائی اور جوق در جوق اپنے ورودِ مسعود سے آزاد کشمیر کی سرزمین کو سرفراز کرنے لگے۔
https://www.youpak.com/watch?v=9qCo4PFxw2s
دو وزیروں کا دورہ خاص طور پر میرے دل پر نقش ہے۔ اُن کی آمد دو میل کے پار کئی سو افراد اُن کے والہانہ استقبال کے لیے پُل کے قریب جمع ہو گئے۔ دونوں وزیر کار سے نیچے اُتر کر کچھ لوگوں سے ہاتھ ملانے لگے تو ایک چھوٹے موٹے جلسہ کی سی صورت پیدا ہو گئی۔ مسلم کانفرنس کے چند کارکنوں نے بڑی جوشیلی استقبالی تقریریں کیں۔ سامعین میں سے ایک بزرگ صورت شخص نے اٹھ کر رقت بھری آواز میں کہا۔ ’جناب پاکستان ایک عظیم ملک ہے۔ آزاد کشمیر تھوڑا سا علاقہ ہے۔ آپ اس علاقہ کو لیبارٹری …..کی طرح استعمال میں لائیں۔ اسلامی احکام اور قوانین کو پہلے یہاں آزمائیں اور پھر اس تجربہ کی روشنی میں انہیں پاکستان میں نافذ کرنے کا سوچیں۔‘ اس بوڑھے کی بات سن کر سارا مجمع سناٹے میں آ گیا۔ پھر اچانک دونوں میں سے ایک وزیر با تدبیر جوش و خروش سے اٹھ کر فصاحت و بلاغت کے دریا بہانے لگا۔ جوش خطابت میں انہوں نے کوٹ کی جیب سے ایک لاکٹ نما سی چیز نکال کر مجمع کے سامنے لہرائی اور بولے ’بھائیو! آپ اور ہم کس کھیت کی مولی ہیں کہ اللہ کے قانون کو آزما آزما کر تجربہ کریں۔ یہ دیکھو یہ اللہ کا قانون ہے جو چودہ سو برس پہلے نافذ ہو چکا اور جس پر عمل کرنا ہم سب کا دینیـ‘ اخلاقی اور ایمانی فرض ہے……‘ وزیر صاحب کی تقریر میں اسلامی جذبات ایسی شدت سے کُوٹ کُوٹ کر بھرے ہوئے تھے کہ سامعین میں سے چند رقیق القلب لوگ بے اختیار رو پڑے۔ واپسی پر احتراماً ان دو وزیر صاحبان کو کوہالہ کے پُل تک چھوڑنے کے لیے میں اُن کے ساتھ کار میں بیٹھ گیا۔ ایک وزیر نے دوسرے وزیر کی شاندار تقریر پر تحسین و آفرین کے ڈونگے برسانے کے بعد پوچھا ’بھائی صاحب! آپ کے پاس قرآن شریف کا لاکٹ بڑا خوبصورت ہے‘ یہ تاج کمپنی کا بنا ہوا ہے یا کسی اور کا؟‘ دوسرے وزیر صاحب کھلکھلا کر ہنسے اور لاکٹ جیب سے نکال کر بولے ’ارے کہاں بھائی صاحب‘ یہ تو محض سگریٹ کالائٹر ہے!‘ وزیروں کی جوڑی ملک غلام محمد اور نواب مشتاق احمد گورمانی پر مشتمل تھی۔‘‘اب ذکر کرتے ہیں بلاول صاحب کے بیان کا جس پر تبصرہ کے لیے شہاب نامہ میں ہی ایک واقعہ جو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے متعلق ہے کو کالم میں شامل کر رہا ہوں۔ ویسے تو سوشل میڈیا کے ذریعے ہی بلاول کو راجہ ظفر الحق کو جنرل ضیاء کا اوپننگ بیٹسمین کہنے پر فوراً ہی جیو کے ایک نیوز اینکر نے یاد دلایا کہ کون کس کو ڈیڈی کہا کرتاتھا لیکن زرا دیکھیں مرحوم شہاب صاحب کیا لکھتے ہیں:’’(صدر اسکندر مرزا) ایک روز میرے کمرے میں آئے اور بولے ’تم زُلفی کو جانتے ہو؟‘ یہ نام میرے لیے قطعی اجنبی تھا۔ میں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا تو وہ بڑے حیرا ن ہوئے اور کہنے لگے ’تعجب ہے تم زلفی کو نہیں جانتے۔ بڑا اسمارٹ لڑکا ہے۔ آج کل کراچی کی نائٹ لائف اُسی کی وجہ سے چمکی ہوئی ہے‘۔ میں نے کراچی کی نائٹ لائف کی رونق سے بھی اپنی محرومی کا اقبال کیا تو صدر اسکندر مرزا نے مجھے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک نوجوان بیرسٹر ہے۔ بڑا پڑھا لکھا آدمی ہے۔ سندھ کے امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ کتابیں جمع کرنے کا شوق ہے۔ وہ ایوان صدر کی لائبریری میں جو سندھ کے متعلق بہت سی کتابیں ہیں‘ انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ صدر مرزا نے مجھے ہدایت کی کہ میں ٹیلی فون کر کے اُس نوجوان کو اپنے پاس بلائوں اور پریذیڈنٹ ہائوس کی لائبریری استعمال کرنے میں اُن کی مدد کروں۔ میرے بلاوے پر ایک چھریرے بدن کا ایک نہایت خوش لباس‘ خوبصورت‘ تیز طراز‘ شوخ اور سیماب صفت نوجوان میرے کمرے میں وارد ہوا۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو میں بلا کی ذہانت اور فطانت تھی اور انہیں بہت سے جدید علوم اور اُن کے اظہار پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ چند ہی روز میں انہوں نے پریذیڈنٹ ہائوس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کے رکھ دیا۔ ایک روز میرے کمرے میں بیٹھے کسی کتاب سے کچھ اقتباسات ٹائپ کروا رہے تھے کہ صدر اسکندر مرزا دن کے ایک بجے میری کھڑکی کے پاس آ کر رُکے۔ بھٹو صاحب کو دیکھ کر انہوں نے بلند آواز سے کہا ’ذلفی گڈ نیوز فار یُو۔ تھمارا نام یو۔این۔ او کے ڈیلی گیشن میں شامل ہو گیا ہے۔‘ یہ خبر سن کر بھٹو صاحب خوشی سے سرشار ہو گئے۔ صدر مرزا کے جانے کے بعد انہوں نے انگریزی ڈانس کی طرز پر میرے کمرے کے ایک دو چکر کاٹے اور پھر مجھے مخاطب کر کے مخصوص اُردو میں کہا ’آپ صاب دیکھو گے کہ اب میں اس راہ پر آیا ہوں تو فارن منسٹر کی کُرسی تک دوڑ لگائوں گا۔‘ بھٹو صاحب وزیر خارجہ کی منزل سے بہت آگے تک گئے‘ اور انجام کار اقتدار کے میدان کو یوں چھوڑا: ’جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے۔‘‘بلاول صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس ملک میں غیر جمہوری قوتوں اور فوجی حکمرانوں کا کبھی بلواسطہ اور کبھی بلاواسطہ اقتدار رہا تو سیاستدان چاہے بھٹو صاحب ہوں، نواز شریف ، بینظیر بھٹو، راجہ ظفر الحق، عمران خان یا کوئی اور آگے بڑھنے کے لیے غیر جمہوری قوتوں کے کھیل میں سب اپنے اپنے وقت میں شریک رہے۔ جس نے اس کھیل سے انکار کیا وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ جو اس کھیل میں شامل ہوا، آگے بھی بڑھا اور اگر ماضی سے سبق سیکھتے ہوئے دوبارہ ایسے کھیل سے توبہ کی تو ایسے کردارو ں کو معاف کر دینا چاہیے۔