تحریر: صہیب سلمان
ہمارا فیلڈ مارشل جنرل کورٹ 31دسمبر1995ء کو اٹک میں شروع ہوا۔ میجر جنرل زاہد احسان اس کے سربراہ تھے جو کہ ماشاء اللہ بہت ذہین اور لائق جنرل تھے۔ اور ہمیں سخت سزائیں دیں مگر افسوس ہمارے کورٹ مارشل کے بعد انہیں دل کا عارضہ ہو گیا وہ لیفٹینینٹ جنرل نہ بن سکے اور بعد میں نادرا کے پہلے سربراہ بنے۔ یہ بات درست ہے کہ عام طور پر حقائق کو دبایا اور چھپایا جاتا ہے یا مسخ کر دیا جاتا ہے۔ ہمارے بارے میں حکومت وقت اور اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف عبدالوحید کاکڑ صاحب کی پوری کوشش تھی کہ ہم چار افسروں اور قاری سیف اللہ اختر کو سرسری فوجی سماعت کے بعد Shootکر دیا جائے۔ یہ سطور بریگیڈیئر ریٹائرڈ مستنصر باللہ کی کتاب آپریشن خلافت1995سے لی گئیں ہیں۔
اس کتاب میں انہوں نے لکھا ہے کہ جنرل جہانگیر کرامت نے نئے چیف آف آرمی سٹاف کا عہدہ 10جنوری1996ء کو سنبھالا اُن کے دبائو کی وجہ سے جنرل عبدالوحید کاکڑ اور بے نظیر بھٹو صاحبہ کا منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ قاری سیف اللہ اختر فوجی نہ تھے اس لئے اُن کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا تھا اس لئے مجبوراً اُن کو رہا کر دیا گیا۔ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل 10ماہ جاری رہا۔ 30اکتوبر1996ء کو ہمیں سزائیں سنائی گئیںاور مجھے 14سال با مشقت پروانہ دے کر سنٹرل جیل بہاولپور پہنچا دیا گیا ۔ حکومتی ذرائع ابلاغ میں ہم پر تواتر کے ساتھ ایک یہ الزام بھی عائد کیا جاتا رہا کہ ہمارا مقصدصرف اقتدار حاصل کرنا تھا۔
اندرونی بات یہ ہے کہ 1994ء میں میجر جنرل ظہیر الاسلام عباسی مجھے مجبور کرتے رہے کہ اس انقلاب کی قیادت کروں اور میرے ماتحت کام کریں گے حالانکہ وہ میجر جنرل اور میں بریگیڈیئر تھا لیکن میرے لئے یہ کیسے ممکن تھا کہ ایسے عظیم ، شریف اور مومن اور پڑھے لکھے جنرل کی موجودگی میں قائد بنتا۔
انقلاب کے کامیاب ہونے کے بعد اسلامی نفاذ کے سلسلے میں اختلافات سے بچنے کے لئے ہم نے ایک منشور بھی تیار کر لیا جو مولانا محمد عبدالقادر ڈیروی صاحب نے لکھا یہ ایک تقریر کی صورت میں لکھا گیا جو میجر جنرل ظہیر الاسلام نے سب سے پہلے کرنی تھی یہی ہمارا مقصد تھا اور ہمارا منشور بھی۔ بریگیڈیئر ریٹائرڈ مستنصر باللہ اپنی کتاب میں یہ بھی لکھتے ہیں کہ افواج پاکستان میں میں بھٹو خاندان کی حکومت پسند نہیں کی گئی۔ 1974میں بریگیڈیئر ایف۔بی علی اور راجہ نادر پرویز کا حکومت کا تختہ اُلٹنے کا منصوبہ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تھا اور ہم لوگوں کی کوشش بھی بے نظیر بھٹو کے خلاف تھی اور ہم میں سے کسی کو بھی بے نظیربھٹو صاحبہ سے ذاتی دشمنی نہ تھی صلاحیتوں کے قائل تھے۔
مگر افسوس کے اُن کی یہ صلاحیتیں ملک کے بگاڑ میں ہی استعمال ہوئیں ہم اکثر اوقات اٹک قلعے کی کوٹھریوں میں بیٹھے ہوئے کہتے تھے کہ (پاکستان میں ایک ہی مرد ہے وہ بے نظیر ہے)۔ مستنصر باللہ نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سے اب یہ بالکل واضح ہو گیا ہے کہ 1971ء کی خانہ جنگی پاکستان کو توڑنے میں سب سے اہم کردار جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ہی تھا اور اُنہی کی وجہ سے ہماری فوج کی ہندوستان کی جیلوں میں رہنا پڑا۔
اُن کی صاحبزادی بے نظیر صاحبہ نے ہندوستان کی امداد اس طرح کی کہ خالصتان نہیں بننے دیا۔ فوج کو اُن سے یہ گلہ ہے کہ اُنہوں نے بھونڈے طریقے سے ملکی راز ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کو دئیے یہ صریحاً غداری ہے۔ دنیا میں کوئی بھی دوسرا ملک ہوتا خواہ ہندوستان میں ہی ایسا ہوتا تو ایسے لیڈر کو ایک دن بھی اقتدار میں رہنے نہ دیا جاتا بلکہ اُس کے خلاف مقدمہ چلایا جاتا۔
تحریر: صہیب سلمان