تحریر : طارق حسین بٹ
جس طرح سولہ دسمبر ٢٠١٤ کو آرمی پبلک سکول پر دھشت گردی کے حملے نے پوری قوم کو یکجا کر دیا تھا اور دھشت گردی کے خلاف پوری قوم یکجان ہو گئی تھی اسی طرح گلشن اقبال لاہور میں دھشت گردی کی کاروائی نے پوری قوم کو اس بات کا قوی احساس دلوایا ہے کہ ضربِ عضب کی طرح کا آپریشن پنجاب میں بھی ناگزیر ہو چکا ہے۔ جس طرح ضربِ عضب نے قبائلی علاقوں میں امن کی خواہش کو حقیقت میں بدل دنے کا معجزہ سر انجام دے کر دھشت گرد وں کو جان بچا کر بھاگ جانے پر مجبور کر دیا ہے بالکل اسی طرح قوم اس بات پر بھی یک زبان ہے کہ پنجاب میں فوجی اپریشن کا فیصلہ کیا جائے تاکہ آگ اور خون کا یہ خونین ڈرامہ اپنے منطقی انجام سے ہمکنار ہو۔ جنرل راحیل شریف نے قوم کی آواز کو محسوس کرتے ہوئے چند دن قبل پنجاب میں فوجی آپریشن کا حکم صادر کر دیا ہے جس سے حکمران جماعت میں بے چینی کی لہریں محسوس کی جا رہی ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ گرفتاریاں بھی عمل میں آئی ہیں جس سے دھشت گردیوں کیلئے زمین تنگ ہو رہی ہے۔
ضربِ عضب کے نتیجے میں قبا ئلی علاقوں میں جس طرح کے شاندار نتائج حاصل کئے گئے ہیں، پوری قوم اس بات کی متمنی ہے کہ اسی طرح کے نتائج پنجاب میں بھی حاصل کئے جائیں تا کہ ہماری آنے والی نسلیں امن اور سکون کی زندگی بسرکر سکیں ۔پچھلے کئی سالوں سے جنوبی پنجاب جس طرح دھشت گردی کو ایندھن فراہم کر رہا ہے اس میں شک و شبہ کی مطلق کوئی گنجائش نہیں ہے کہ ان علاقوں میں فوجی اپریشن ناگزیر ہو چکا ہے۔یہ سچ ہے کہ جنوبی پنجاب میں پسماندگی اور غربت دھشت گردی کی جڑیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علا قوں میں محرومی کے احساس کو ختم کیا جائے اور ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جائے تا کہ روزگار کے بہترین مواقع کی بدولت جنوبی پنجاب کے عوام کا رحجان دھشت گردی سے ہٹایا جا سکے۔
حدیثِ مبارک ہے کہ غربت انسانوں کو کفر کی جانب دھکیل دیتی ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی ترجیحات میں جنوبی پنجاب کی ترقی کا کہیں کوئی نام و نشان نہیں بلکہ ہر حال میں لاہور کی شان و شوکت بڑھانا ہے۔پنجاب کے وزیرِ اعلی میاں شہباز شریف کو لاہورکے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔در اصل ان کی دور کی نظر کمزور ہے لہذا وہ گھوم گھما کر لاہور میں ہی سارے ذرائع جھونکتے جا رہے ہیں ۔ یہ سچ ہے کہ لاہور ایک تاریخی شہر ہے اور اس کی ترقی پر کھل کر پیسہ بہانے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی تو ضروری ہے کہ پنجاب کے دوسرے علاقوں کو بھی اہمیت دی جائے اور وہاں کے رہنے والے عوام کو بھی احساس دلا یا جائے کہ پنجا ب کے وسائل میں ان کا بھی حصہ ہے۔لاہور کے علاوہ دوسرے شہروں میں سڑکوں اور نکاسی کا جو گندہ سسٹم ہے اس پر کبھی وزیر اعلی کی نظر نہیں جا تی اور نہ ہی وہ ان کی حالت بہتر بنانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔نفرت ایک دفعہ دل میں گھر کر جائے تو پھر اس کو نکالنا ممکن نہیں ہوتااور جنو بی پنجاب کے عوام نظر انداز کئے جانے والی نفرت کو سالہا سال سے اپنے دلوں میں پال رہے ہیں۔
ہم نے مشرقی پاکستان والوں کے ساتھ بھی ایسے ہی رویے رکھے تھے جن کا نتیجہ بنگلہ دیش کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔بھارت نے مشرقی پاکستان کے احساسِ محرومی میں علیحدگی کی بیج بوئے اور شیخ مجیب الرحمان نے اپنے چھ نکات کی صورت میں پوری قوم کو داخلی خود مختاری کی جانب دھکیل دیا۔بھارت اسی طرح کے نتائج کیلئے بے قرار تھا جس کی وجہ سے پاکستان اپنے ایک بازو سے محروم ہو گیا ۔بھارت نے مکتی باہنی کی صورت میں اپنے فوجیوں اور جاسوسوں کا ایسا لشکر تیار کیا جس نے متحدہ پاکستان کے خواب کو منتشر کے رکھ دیا ۔بنگالی اور مکتی باہنی جب یکجا ن ہو گئے تو پھر پاکستان کا متحد رہنا نا ممکن تھا۔
بنگلہ دیش میں فوجی اپریشن تو کیا گیا لیکن اس وقت جب سب کچھ ختم ہو چکا تھا۔بنگلہ دیش تو بن کر ہی رہنا تھا لیکن اس کے ساتھ ہمیں فوج کے ہتھیار ڈالنے کا وہ داغ بھی سنا پڑا جسے کبھی دھویا نہیں جا سکے گا۔قومیں مختلف مدارج سے گزر کر اپنا سفر مکمل کرتی ہیں لیکن اس کی راہ میں سب سے مشکل کام اپنی ایکتا اور اتحاد کو بر قرار رکھنا ہوتا ہے جوتمام اکائیوں کو ایک آنکھ سے دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے لہذا جو قوم ایسا کر سکنے کی اہلیت رکھتی ہے اس کی آزادی اور خود مختاری کبھی ختم نہیں ہوتی۔،۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت نے دل سے کبھی بھی پا کستان کو تسلیم نہیں کیا لہذا وہ پاکستان کو ہر حال میں خود میں ضم کرنا چاہتا ہے ۔بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ بھارت ہمارے مزید حصے بخرے کرنے پر تلا ہوا ہے۔
آزادی کے ابتدائی دنوں میں بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جو ہر لال نہرو نے برملا کہا تھا کہ چند سالو ں کے اندر پاکستان شبنم کی طرح ہوا میں تحلیل ہو جائے گا ور یوں مہا بھارت کا خواب شرمندہِ تعبیر ہو نے میں کوئی چیز مانع نہیں ہو گی۔اس کی یہ خواہش تاریخ کے جبر کے سامنے برو مندی حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔بھارتی سازشوں کے نتیجے میں بنگلہ دیش کا قیام تو عمل میں آ گیا لیکن مہا بھارت کا حصہ بننے کی بجائے بنگلہ دیش ایک علیحدہ اسلامی ریاست کے طور پر سامنے آیا جس کی بھارت کو بڑی تکلیف ہے۔یہ سچ ہے کہ بنگالی وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد بھارتی ہاتھوں میں کھیلتی ہے لیکن وہاں کے عوام اسلام اور پاکستان سے سچی محبت کرتے ہیں جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بنگلہ دیش کی سر ز مین پر بھارت بما قبلہ پاکستان کرکٹ میچ میں پورے بنگلہ دیش میں پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیںاور پاکستانی فتح کا جشن منایا جاتا ہے۔لیکن ہماری کوتاہ نگاہی دیکھئے کہ آزادی کی جنگ کے ہراول دستے کو ہم نے ذاتی نمودو نمائش اور مغربی پاکستان کی فلاح و بہبود کے نام پر خود سے کاٹ کر الگ کر دیا اور ہمیں اس بات کا احساس تک نہ ہوا کہ ہم نے جناح کے پاکستان کے ساتھ کتنا گھنائونا فعل کیا ہے؟۔
مشرقی پاکستان کے بعد بھارت کے حوصلے مزید بلندہو چکے ہیں اور اس نے بلوچستان اور کراچی کو اپنی سر گرمیوں کا محور بنا لیا ہے ۔کراچی میں الطاف حسین اور بلوچستان میں لبریشن آرمی بھارتی ا نگلیوں پر ناچ رہی ہے۔الطاف حسین تو سرِ عام را کو مدد کے لئے پکارتے رہتے تھے اور انھیں کراچی کو آزاد کروانے کے پیغامات بھیجتے رہتے تھے لیکن پاکستان کے ایٹمی قوت بن جانے کے بعد بھارت پاکستان میں مکتی باہنی جیسی تاریخ دہرانے سے خائف ہے۔اسے علم ہے کہ پاک فوج اس کے گندے عزائم کو خاک میں ملانے کیلئے ہمہ وقت چوکس ہے۔
آج پاک فوج کی پہنچ پاکستان کے سارے علاقوں تک ہے جس سے بھارت توسیع پسندی میں ہچکچاہت کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔بھارت نے کئی بار کوششیں کر کے دیکھ لیا ہے لیکن اس کے ہاتھ رسوائی کے سوا کچھ نہیں آیا ۔قوتِ ایمان سے روشن پاک فوج کے عزائم کو شکست دینا بھارتی فوج کی بساط سے باہر ہے۔یہ مشرقی اور مغربی پاکستان والا معاملہ نہیں ہے جس وقت دونوں بازئوں کے درمیان بھا رتی سر زمین حائل تھی اور مشرقی پاکستان تک رسد پہنچانے کے سارے راستے مسدود تھے۔
اپنی اس مجبوری کی وجہ سے پاک فوج خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی تھی کیونکہ اس کیلئے کسی بھی راستے سے مشرقی پاکستان تک رسد پہنچانا ممکن نہیں تھا۔یہ ایک سٹر یٹیجک غلطی تھی جس کا ادراک اس وقت کی سیاسی قیادت کرنے سے قاصر تھی لیکن آج کی فوج تمام پہلووں کا مکمل ادراک رکھتی ہے جس سے بھارتی عزائم خاک میں مل رہے ہیں اور پاکستان کو دو لخت کرنے کی ان کی سازشیں ناکامی سے ہمکنار ہو رہی ہیں ۔کراچی میں حالیہ رینجرز اپریشن نے بھارتی عزائم کو جس طرح زک پہنچائی ہے وہ بیان سے باہر ہے۔الطاف حسین کو محدود کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے جس طرح مصطفے کمال کو میدان میں اتارا ہے وہ انتہائی اہم ہے۔مصطفے کمال کی پاک سرزمین پارٹی علیحدگی کے اس رحجان کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوارثابت ہو گی جس کا خواب بھارت اور الطاف حسین دیکھ رہا تھا۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ
(چیرمین پیپلز ادبی فورم)