شام کا علاقہ عفرین سنہ 2012ء سے کرد جنگجوؤں (علیحدگی پسند کرد تنظیم، وائی پی جے/ پاپولر پروٹیکشن یونٹ) کے کنٹرول میں ہے جو ترکی کے جنوبی سرحد پر سرگرم کرد باغیوں کے ساتھ ملکر اپنے لئے الگ ملک کردستان بنانا چاہتے ہیں۔ یہ کردش ملیشیا گروپ وائی پی جےاور داعش سے لڑنے کے لئے سالہا سال سے امریکی اتحادی افواج سے تربیت اور اسلحہ لیتا رہا ہے۔ اس امریکی اتحاد نے30 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل باڈر فورس تیار کی ہے تاکہ وہ شام کے کرد علاقوں بشمول عفرین جہاں ترکی نے ابھی حملہ کیا ہے کا تحفظ کر سکے۔ ترکی اس ملیشیا گروپ کو شامی کردش ڈیموکریٹک یونین( پی وائے ڈی) کا عسکری ونگ تصور کرتا ہے جو کالعدم گروپ ‘کردستان ورکرز پارٹی’ (پی کے کے) کے ساتھ ملکر کام کر رہی ہے جو چار دہائیوں تک ترکی میں شورش برپا کرنے میں ملوث رہی ہے نیزاسے یورپی یونین، ترکی اور امریکہ ایک دہشت گرد گروپ قرار دے چکا ہے۔
اتوارکی شب سے ترک فضائیہ نے شام کے شمال میں اس کالعدم ‘کردستان ورکرز پارٹی’ سے منسلک کرد ملیشیا(وائی پی جے) کے ٹھکانوں پر فضائی حملے شروع کردیئے ہیں۔ اوراسے ترکی نے ‘آپریشن اولیو برانچ’ کا نام دیا ہے۔ ترک نیوز ایجنسی انادولو کے مطابق، ترک افواج عفرین کے اندر 5 کلومیٹر تک داخل ہو چکی ہیں اور انہیں بکتر بند گاڑیوں، اسپیشل فورسز اور انفنٹری رجمنٹس کی مدد حاصل ہے۔ اس سے قبل اسی ترک نیوز ایجنسی نے خبر دی تھی کہ ترکی کی حمایت یافتہ فری سیرین آرمی کے جنگجو اتوار کی صبح ہی عفرین کے اطراف میں جمع ہونا شروع ہو گئے تھے۔ وائے پی جے نے ان کی عفرین کے ضلع بلبل کے دو گاؤں (جو ترکی کے باڈر کے قریب موجود ہیں) میں پیش قدمی کی تصدیق کر دی ہے۔
ترکی نے باور کیا ہے کہ وہ آئی ایس آئی ایس (داعش) اور امریکی ایماء پر سرگرم کرد ملیشیا کا قلع قمع کر کے ہی دم لیں گے۔ شامی علاقے عفرین میں ترکی کی اس حالیہ فضائی کارروائی کو عالمی میڈیا امریکہ ترک تعلقات میں ایک دراڑ کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اور یہ بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں کہ کیا یہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں ہونے والی پہلی باقاعدہ جنگ کی شکل تو اختیار نہیں کر لے گی؟ ترک امریکہ تعلقات ستر سال پرانے ہیں۔ مگر اب عالمی میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ ترکی روس کی مدد سے امریکہ کو مشرق وسطیٰ سے نکالنے کے درپے ہے اس لئے ترک فضائیہ کے شامی علاقے عفرین پر حالیہ حملے کو عالمی میڈیا امریکہ کے خلاف ایک پراکسی وار کے طور پر رپورٹ کر رہا ہے۔
اسی ضمن میں ترک حکام ٹویٹر پر گاہے بگاہے اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کے لئے ان کی تصاویر بھی جاری کر رہے ہیں جنہیں عوام الناس میں خاطر خواہ پذیرائی مل رہی ہے حتٰکہ ان کے ٹرینڈ کو پاکستان میں بھی خوش دلی سے فالو کیا جا رہاہے۔ علاوہ ازیں، آنے والے کچھ روز میں یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ ترک امریکہ حالیہ چپقلش مشرقِ وسطیٰ میں کس مصیبت کا پیش خیمہ ہے؟