بدھ کو لاہور میں سیکیورٹی امور سے متعلق اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں تمام کور کمانڈرز نے بھی شرکت کی۔ اس اہم اجلاس کی صدارت آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے کی اور آپریشن ’’ردّ الفساد‘‘ کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ پنجاب میں دہشتگردوں کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی اس آپریشن کا ہدف ہے۔
’’ملک بھر‘‘ میں دہشتگردوں کے خلاف ’’بلا امتیاز‘‘کارروائی،حاصل شدہ نتائج کی حفاظت، سرحدوں کا تحفظ کے بنیادی مقاصد کے تحت اس کارروائی میں بری فوج کے ساتھ ساتھ بحریہ، فضائیہ اور دیگر سیکیورٹی اور قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی شامل ہیں۔ درپردہ دہشتگردوں کو مالی اعانت، پناہ گاہیں اور ہتھیار فراہم کرنے والے ان کے معاونین اور سہولت کار اس کارروائی کا مرکزی ہدف ہیں۔
17جولائی 2015ء کو ’’منظم جرائم دہشتگردی کے فروغ کا باعث‘‘ کے عنوان سے شایع ہونے والے کالم میں راقم نے لکھا تھا ’’دہشتگردی کے محرکات نظریاتی جب کہ جرم کا واحد سبب لالچ ہے، مشترکہ مقاصد کے لیے ان کا باہمی تعاون بڑھتا جا رہا ہے۔ دہشتگردوں کو مالی وسائل اور ہتھیار درکار ہوتے ہیں،’’منظم جرائم‘‘کانیٹ ورک انھیں ہتھیار، منشیات اور انسانی اسمگلنگ کے ذرایع اور منی لانڈرنگ جیسی سہولتیں فراہم کرتا ہے، اس میں بین الممالک اور خطے میں سرگرم اسمگلنگ مافیا بھی شامل ہے۔
دہشتگرد ’’منظم جرائم‘‘کے اس نیٹ ورک کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے۔ منشیات کے کاروبار اور جرائم کے مراکز کے خلاف کارروائی کے بغیر دہشتگردوں کے ٹھکانوں کاسراغ لگانا انتہائی دشوارہے۔ ’’منظم جرائم‘‘کا نیٹ ورک کرپشن اور بدعنوانی کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ ‘‘ اس کالم میں یہ بھی عرض کیا تھا ’’دہشتگرد تنظیمیں جرائم پیشہ عناصر کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ایسے ہی جرائم پیشہ عناصر کبھی کبھی نظریاتی شکل بھی اختیار کر جاتے ہیں۔ دہشتگردی کو پشت پناہی فراہم کرنے والے اس منظم جرائم کے نیٹ ورک کو جب تک بھاری نقصان نہیں پہنچایا جاتا، دہشتگردی کو رسد فراہم کرنے کا راستہ بھی بند نہیں ہو گا۔‘‘
’’ضرب عضب‘‘کے نتیجے میں شمالی وزیرستان کو دہشتگردی سے پاک کر دیا گیا۔ سندھ حکومت کی جانب سے پولیس کے اختیارات دینے میں تذبذب کے باوجود، رینجرز نے کراچی میں جرائم اور دہشتگردی کے خاتمے میں غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ہر کچھ عرصے بعد رینجرز کے اختیار میں توسیع کرتے ہوئے حکومت سندھ پس و پیش کا مظاہرہ کرتی رہی،اس رویے سے بدعنوانی، منظم جرائم اور دہشتگردی کا گٹھ جوڑ عیاں ہوتا ہے۔
’’انسدادِ دہشتگردی‘‘ کے عنوان سے 17 دسمبر 2015ء کو شایع ہونے والے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا ’’ہم نے مذہب اور قومیت کے مابین حدّ فاصل کو دھندلا دیا ہے۔ پاکستان کا نظام سیاست ’’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘‘ کے اصول پر استوار ہوا ہے۔ نسلی، گروہی اور فرقہ وارانہ اختلافات کو ہوا دینے والے عناصر کو سخت سے سخت سزا دینی چاہیے۔ ایسے عناصر کو بلاواسطہ اور بالواسطہ مالی مدد فراہم کرنے والوں کو نشان عبرت بنانے اور خیرات کی مدد میں ملنے والے عطیات کی کڑی نگرانی کی ضرورت ہے۔
’’حوالہ‘‘ کے ذریعے فارن ایکسچنج ڈیلرز کی مدد سے دہشتگردوں کو فنڈز کی ترسیل کی جاتی ہے۔ رقوم کی ترسیل کی نگرانی اور ضابطے کے تحت لانے کے لیے اسے بینکوں کے الیکٹرانک پراسیس کے سپرد کرنا ہو گا۔ ‘‘دہشت گردی اور مسلح کارروائیوں میں بالواسطہ یا بلا واسطہ ملوث افراد کو بلا امتیاز سزائین دینے کی مثال قائم کرنے سے مذموم ارادے رکھنے والوں کو عبرت حاصل ہو گی۔
دہشتگردی کے خاتمے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ سیاستدانوں، کرپشن اور منظم جرائم کے گٹھ جوڑ سے بننے والے دائرے کو توڑ دیا جائے۔ معاشی بد عنوانی، اختیارات کے غلط استعمال، فریب و دھوکا دہی، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، عوام کی اعتماد شکنی سمیت بدعنوانی کو ہر پہلو سے قانون کے شکنجے میں لایا جائے۔
جاری ہونے والے اعلامیے کے مطابق ’’ردّالفساد‘‘پنجاب میں وسیع پیمانے پر رینجرز کی جانب سے سیکیورٹی اور انسداد دہشتگردی کے آپریشنز پر مبنی ہو گا اور اس کا دائرہ پورے ملک میں پھیلایا جائے گا۔ علاوہ ازیں سرحدوں کے حفاظتی انتظامات کو مزید موثر بنایا جائے گا۔ اس آپریشن کے مقاصد میں ملک گیر سطح پر اسلحے کی ضبطی کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ پنجاب میں ایسی ہمہ گیر کارروائی پہلے ہی شروع ہو جانی چاہیے تھی۔ جنرل راحیل یہ کام ادھورا چھوڑ گئے۔
جنرل قمر باجوہ احتساب کی عوامی امنگوں کی تکمیل کے لیے کوشاں ہیں۔ بعض سرکاری حکام کی جانب سے مسلح اور جرائم پیشہ عناصر کی سر پرستی ایک کھلا راز ہے۔ مسلح گروہ آزادانہ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں بلکہ انھیں عطیات جمع کرنے کی بھی چھٹی حاصل ہے۔ 60 سے زاید ایسی تنظیموں اور گروپوں کے خلاف فوج کو کارروائی سے صرف سیاسی مفاد کی خاطر روکا جاتا رہا۔
پنجاب میں بارسوخ سیاسی عناصر اپنی انتخابی فتح کے لیے ایسے عناصر پر انحصار کرتے ہیں، جواباً یہ گروہ اپنی مرضی کے ’’ضابطے‘‘ لاگو کر کے اپنے کرم فرماؤں کا ووٹ بینک بڑھاتے ہیں۔ بہت کوشش کی گئی کہ پنجاب کو مسلح افراد سے پاک تسلیم کر لیا جائے لیکن یہ بات حقائق کے سراسر خلاف تھی۔
پنجاب میں پنپنے والے خطرات کے خلاف فیصلہ کُن کارروائی کا سہرا جنرل باجوہ کے سر جاتا ہے۔ ملکی مفاد میں انھوں نے دلیرانہ قدم اٹھاتے ہوئے کسی تأمل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اپنی پوری ٹیم کے ساتھ وہ میدان میں اترے اور اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ امن دشمن عناصر اور ان کے مدد گاروں کے خاتمے کا عزم مصمم رکھتے ہیں۔
بوکھلاہٹ کا شکار اس کارروائی کے مخالفین سیاسی مداخلت کی کوشش کریں گے لیکن اب محاذ کھولا جا چکا۔ اس میں کوئی ابہام نہیں کہ یہ آپریشن صرف پنجاب تک محدود نہیں رہے گا۔ ’’ردّ الفساد‘‘ میں کسی قسم کی سیاسی مداخلت قبول کیے بغیر کارروائی کے ساتھ اس بات پر بھی نگاہ رکھنی ہو گی کہ شدت پسند اور مسلح عناصر کہاں کہاں مضبوط و مؤثر ہیں۔جنرل قمر باجوہ کو، دیر سے سہی، اس بات کا اندازہ ہو رہا ہے کہ ’’لو پروفائل‘‘ رہنے کا فیصلہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا، جب کہ یہاں تاثر ہی کو حقیقت تسلیم کیا جاتا ہے۔ برقیات کے اس دور میں کام کرنا ہی نہیں بلکہ کام کرتے دکھائی دینا بھی ضروری ہے۔
سپہ سالار کے فیصلہ کُن انداز نے قوم کی خود سے وابستہ توقعات کو پورا کر دکھایا ہے۔ ’’ردّ الفساد‘‘ کے آغاز سے ایک بار پھریہ واضح ہو گیا ہے کہ دہشتگردی کی بیخ کُنی اب ہمارا قومی مقصد ہے۔ جنرل باوجوہ کا انداز اپنے پیش رو سے مختلف ہو سکتا ہے، لیکن حالات نے ثابت کیا ہے کہ مسائل کا گہرا ادارک رکھتے ہیں اور ان سے نمٹنے کا بھرپور عزم اور صلاحیت بھی۔
اکرام سہگل