تحریر : شاہد شکیل
عام حالات میں اگر کسی انسان کو معمولی جسمانی تکلیف مثلاً سر درد ،پیٹ کا درد وغیرہ ہو تو پیرا سیٹا مول ، اسپیرین یا دیگر پین کلرز کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن اگر جسمانی اعضاء میں انفیکشن ہو یا حادثات میں فریکچرز ہو جائے تو فوری طور پر آپریشن لازمی ہوتا ہے لیکن دنیا بھر کے کئی ترقی پذیر ممالک میں آپریشن کروانے کی نوبت ہی نہیں آتی کیونکہ غربت کے علاوہ ہسپتالوں اور سرجری کا نظام اتنا بدتر ہے کہ انسان علاج کروانے سے قاصر ہوتا ہے اور قبل از وقت موت کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔بلیٹن آف دی ورلڈ ہیلتھ اورگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے ترقی پذیر ممالک کے ہسپتالوں میں سرجیکل سسٹم اتنا ناکارہ ہے کہ علاج ناممکن ہو جاتا ہے اور صحت سے متعلق دیگر کارروائیوں میں شدید روکاوٹیں پیدا ہو جاتی ہیں۔
گزشتہ آٹھ برسوں میں آپریشن کرنے کی تعداد میں ایک تہائی اضافہ ہوا ہے بالخصوس غریب ممالک میں جہاں عام علاج سے شفایابی ممکن ہے وہاں محض دولت اور شہرت کے حصول کیلئے غریب عوام کو بے مقصد آپریشن تھیٹر پہنچا دیا جاتا ہے تاکہ ڈاکٹروں کی ساکھ بر قرار رہے ،شدید تکلیف میں مبتلا مریضوں کی زندگی بچانے کیلئے آپریشن لازمی ہوتا ہے مثلاً ایکسیڈینٹ یا جسمانی اعضاء میں بیماری پھیل جانے کے خطرات وغیرہ لیکن دنیا بھر میں اگر ایک طرف آپریشن کی تیاری کیلئے ہسپتالوں کے قیام ،سرجنز کے مکمل طور پر میڈیکل کور سسز اور انیستھیزیا سسٹم پر عبور حاصل نہ ہونے یا کمی کے سبب کئی آپریشنز کامیاب نہیں ہوتے۔
دوسری طرف کئی نام نہاد ڈاکٹرز، جعلی سرجن دولت کے حصول کے لئے ایک صحت مند انسان کو بھی آپریشن تھیٹر پہنچا دیتے ہیں اور غیر زمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے قصور اور صحت مند افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتے ہیںاکثر ڈاکٹر یہ کہہ کر لواحقین سے اپنی جان چھڑاتے ہیں کہ آپریشن کامیاب نہیں ہوا اللہ کی مرضی تھی ایسے ڈاکٹر جانتے ہیں کہ غریب عوام ان کے گریبان تک نہیں پہنچ سکتے اور غریبوں کا ہزاروں لاکھوں روپیہ لوٹ لیتے ہیں جو سراسر ناانصافی ، ظلم اور ناقابل تلافی جرم ہے۔
ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں دوہزار بارہ میں تین سو تیرہ میلین آپریشن کئے گئے جن میں سے تیس فیصد دنیا کے ایک سو چار ممالک میں آپریشن محض اس لئے ناکام ہوئے کیونکہ ایک طرف جراحی آلات کی کمی تو دوسری طرف ڈاکٹرز کی غیر ذمہ داری اور تیسری ناکامی آپریشن کے اخراجات جو ہر انسان ادا نہیں کر سکتا اعدا د وشمار کے مطابق تقریباً چار سو ڈالر فی کس آپریشن کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور ادائیگی نہ ہونے کے سبب کئی افراد موت کا شکار ہوئے،ادارے کا کہنا ہے غریب ممالک کے اکہتر فیصد افراد مہلک بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باعث آپریشن کروانے پر مجبور ہوئے اور زیادہ تر ادائیگی نہ کرنے اور جراحی آلات کی عدم دستیابی پر موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ انہیں غریب ممالک میں پانچ ارب سے زائد افراد کو آپریشن مطلوب ہے لیکن اوپر تحریر کردہ مسائل اور وسائل آڑے آنے کے سبب محروم ہیں اور تڑپ تڑپ کر جان دیتے ہیں۔
سٹین فورڈ یو نیورسٹی کے ماہرین نے گلوبل سرجیکل کئیر پر ایک رپورٹ تیار کی جس میں بتایا گیا کہ آپریشن فریکیونسی اور معلومات کے عین مطابق دنیا کے چھیاسٹھ ممالک میں آپریشن کے مکمل انتظامات ہیں جن میں قابل ذکر ماہر سرجن ، مکمل سرجیکل انسٹرو منٹس اور دیگر ہوسپیٹلز لوازمات شامل ہیں جبکہ ایک سو اٹھائیس ممالک میں مکمل آپریشن سسٹم نہ ہونے سے ہر انسان دوران آپریشن یا بعد از موت کا شکار ہوتا ہے۔
دوہزار چار سے آپریشنل کارروائیوں میں نمایاں طور پر اضافہ ہوا ہے اور سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کے افراد متاثر ہیں جن کی تعداد اوسطاً تین سو چورانوے سے بڑھ کر چھ سو چھیاسٹھ سے تجاوز کر چکی ہے اور جن ممالک میں آمدنی کا گراف انتہائی ڈاؤن ہے وہاں تعداد دگنی اور آپریشن کا رحجان بہت زیادہ ہے کیونکہ صحت کی دیکھ بھال اور صفائی کے مکمل انتظامات نہ ہونے پر کئی اقسام کی بیماریوں کے پھیل جانے اور ناکارہ ٹریفک سسٹم سے ایکسیڈینٹ کی صورت میں آپریشن لازمی ہوتا ہے ایسے ممالک کے افراد شدید متاثر ہو رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے وسائل کی کمی کا مطلب یہ نہیں کہ سرمایہ وہاں استعمال کیا جائے جہاں اسکی قطعاً ضرورت نہیں بلکہ ایک مکمل پلان کے تحت بنیادی سہولتوں جن میں پانی ،بجلی ،گیس ، صحت ، تعلیم اور سب سے بڑھ کر صفائی وغیرہ پر سرمایہ لگایا جائے تاکہ بیماریوں سے پاک صحت مند سسٹم کا عمل ہو اور ہر غریب انسان بوقت ضرورت مفت آپریشن کروائے،رپورٹ کے مطابق غریب ممالک میں انتیس فیصد افراد کا آپریشن لازمی ہوتا ہے اور امیر ممالک میں صحت کا پرفیکٹ نظام ہونے کے تحت تین فیصد سے بھی کم افراد آپریشن تھیٹر داخل کئے جاتے ہیں۔
کیونکہ جب تک صفائی اور صحت کا مکمل انتظام نہیں ہو گا بیماریاں پھیلیں گی اور آپریشن کروانا لازمی ہوگا تاکہ انسانی زندگی بچائی جا سکے۔ حکومتوں کے فرائض میں بہت کچھ شامل ہوتا ہے۔
لیکن جن ممالک کے لیڈر ز محض اپنے مفاد کیلئے الیکشن میں حصہ لیتے ہوں اور لیڈری کرسیاں حاصل کرنے کے بعد عوام کو بھول جائیں وہاں کے غریب عوام اسپرین لینے سے قاصر ہوتے ہیں، آپریشن کروانا تو آسمان سے تارے توڑ لانے کے مترادف ہو جاتا ہے۔
تحریر : شاہد شکیل