تحریر : طارق حسین بٹ شان
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی ٢١ اگست کی تقریر کے بعد کراچی کی صورتِ حال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو رہی ہے۔اس تقریر کے بعد مصطفے کمال کی اہمیت دو چند ہو گئی ہے کیونکہ ایم کیو ایم کی پاکستانی قیادت نے اپنے قائد کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دیا ہے۔میری ذاتی رائے ہے کہ مصطفے کمال کی صورت میں کراچی سے ایک ایساسورج طلوع ہو نے والا ہے جو اآنے والے دنوں میں سیاست کی نگری کو اپنی روپہلی کرنوں سے منور کرنے کا فریضہ سر انجام دیگا۔
ایک وقت تھا کہ قائدِ تحریک الطاف حسین کراچی کے سیاہ و سفید کے مالک گردانے جاتے تھے اور ان کے ایک اشارے پر کشتوں کے پشتے لگ جاتے تھے اور جو کئی ان کے مدِ مقابل کھڑا ہونے کی جرات کرتا تھا ماضی بن جایا کرتا تھا ۔حد تو یہ تھی کہ قائدِ تحریک جس کے نام کی سپاری تھما دیتے اس شخص کیلئے پھر زندہ رہنا محال ہو جاتا تھا۔حکیم سعید(گورنر سندھ) اس کی سب سے بڑی مثال ہیں جھنیں سرِ عام گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن ان کے قاتلوں کی نشاندہی نہ ہو سکی تھی ۔زمانہ چیختارہا چلا تا رہا لیکن کسی کی ایک نہ سنی گئی۔
مرنے والوں کے ساتھ کوئی مر تھوڑا جاتا ہے لہذا انصاف کرنے والوں کو بھی تو اپنی زندگی عزیز تھی لہذ ان کی اپنی زندگی کی بقا کیلئے ضروری تھا کہ حکیم سعید کا قتل تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا اور قاتلوں کو با عزت بری کر دیا جاتا۔اس زمانے میں عدالتوں کیلئے قائدِ تحریک کی ناراضگی کابوجھ اٹھا نا ممکن نہیں تھا لہذا فیصلے ایم کیو ایم کی مرضی اور منشاء کے مطابق ہی ہورتے تھے۔
ہر عروجِ را زوال کی عالمگیر سچائی کو جھٹلایا نہیں جا سکتا لہذا قائدِ تحریک کو بھی اس سے استثنی نہیں ہو سکتا تھا۔اس عالمی مفروضے کا اطلاق ان کی ذات پر بھی ہو ا لہذا کئی عشروں سے مقبولیت کی یہ گدی اب ان سے چھیننے کی پوری تیاری ہے اور اس کیلئے پورے کرو فر کے ساتھ مصطفے کمال کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔قائد تحر یک الطاف حسین کی صحت کے ساتھ ساتھ بے شمار دوسرے عوامل بھی ہیں جو بالواسطہ قائدِ تحریک کی گمنامی کا باعث بنیں گئے۔لوگ شائد یقین نہ کریں لیکن سب کچھ اسی سکرپٹ کے مطابق ہونا قرار پایا ہے جسے اسٹیبلشمنٹ نے تحریر کیا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کو کوئی لاکھ برا کہے لیکن اس کی نیت اور حب الوطنی پر کوئی شک نہیں کیا جا سکتا۔اسٹیبلشمنٹ اپنے ذرائع ،خفیہ رپورٹوں اور ایجنسیوں کی فیڈ بیک سے اپنے لئے راہِ عمل کا تعین کرتی ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی بے شمار چیرہ دستیوں کے باوجود اس کی حب الوطنی اور خلوص سے کسی کو بھی انکار نہیں ہو سکتا جس کی سب سے واضح مثال اپریشن ضربِ عضب ہے جسے فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بزورِ بازو شروع کر رکھا ہے اور جس نے پوری قوم کو دھشت گردی کے آسیب سے رہائی دلوائی ہے۔
اب ہر کوئی اپریشن ضربِ عضب کی تعریف و توصیح میں جٹا ہو ا ہے جبکہ اس اپریشن پر کئی حلقوں نے شروع شروع میں تحفظات کا اظہار بھی کیا تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف اسی اپریشن سے اس وقت پاکستان کی سب سے مقبول شخصیت بنے ہوئے ہیںوگرنہ جنرل پرویز مشرف کے دورِ اقتدار میں فوج جس طرح مطعون ہو رہی تھی وہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔قومی مفاد میں کیا ہوا سٹیبلشمنٹ کا یہ فیصلہ فوج کی توقیر کا باعث بن چکا ہے اور وہی فوج اب ہر پاکستانی کی دل کی دھڑکن بن چکی ہے۔،۔
مصطفے کمال کی بے خوف بغاوت سے بہت سے لوگوں کے دلوں میں شکو ک و شبہات جنم لے رہے ہیں لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ یہی پاکستانی سیاست کا مخصوص انداز ہے جس میں کوئی بات مروجہ سیاسی اطوار کے مطابق وقوع پذیر نہیں ہوتی۔جماعت اسلامی اور پاکستان تحریکِ انصاف کو چھوڑ کر کونسی ایسی سیاسی جماعت ہے جس میں باقاعدگی سے الیکشن ہوتے ہیں۔نا مزدگیاں ہو تی ہیں اور نامزد عہدے دار پارٹی لیڈر کے سامنے بھیگی بلی بنے رہتے ہیں۔سیاسی جماعتیں خاندانی لمیٹڈ کمپنیاں بن چکی ہیں جس میں افرادِ خانہ حکومتی فیصلے کرتے ہیںاور پارلیمنٹ منہ دیکھتے رہ جاتی ہے۔یہ کیسی جمہوریت ہے جس میں وزیراعظم پارلیمنٹ میں جانا اپنی توہین سمجھتا ہے،کابینہ کی باقاعدہ میٹنگ نہیں ہوتی۔
وزیرِ اعظم کے اہلِ خانہ حکومتی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں اور سینئر پارٹی راہنما ان کے سامنے ذاتی خادموں اورمز ارعوں والا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔اہلِ خانہ کی خوشنودی ہی ان کی بقا کی ضمانت ہوتی ہے لہذا وہ اپنی بقا کی ضمانت کو کسی بھی حال میں نہیں بھولتے۔ جہاں پر ایک نو عمر لڑکے کو پارٹی کا چیرمین بنا دیا جائے وہاں پر سیاسی کلچر کی گہرائی کا ادراک کرنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چائیے ۔کاغذ کے ایک ٹکرے پر پارٹی کی سربراہی مل جانا ہمارے ہاں ہی ممکن ہو سکتا ہے۔وصیتوں سے پارٹی عہدے لینے کا چلن ہمارے سیاسی کلچر میںہی پروان چڑھ سکتا ہے جبکہ جمہوری معاشروں میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔خاندانی سیاست پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔
سیا ستدنوں کی اولاد سیاست میں ضرور حصہ لے لیکن اپنی سینئر قیادت کو اپنے قدموں میں سرنگوں کر کے نہیں بلکہ ان کی سربراہی میں جدو جہد کر کے اپنا مقام بنائے۔ سوال کسی کی اہلیت یا نا اہلیت کا نہیں ہے بلکہ سیاسی عمل کا ایک طریقہ کار ہے جو سارے جمہوری معاشروںمیں رائج ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں اس جمہوری کلچر کو کئی اہمیت نہیں دی جاتی کیونکہ یہاں پر جمہوریت ابھی تک چند خاندانوں کی لونڈی بنی ہوئی ہے اور وہ چند خاندان اس لونڈی کو آزاد کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔اب جس سیاسی کلچر کی بنیادیں ہی خاندانی وراثت پر رکھی گئی ہوں وہاں پرسب کو سمجھ لینا چائیے کہ یہاں پر الٹی گنگا بہتی ہے۔وراثتی اقتدار کے رویے ملوکانہ طرزِ حکومت میں تو جائز قرار دئے جا سکتے ہیں کیونکہ ان کے انتظامی ڈھانچے میں اس بات کی اجازت ہو تی ہے لیکن جمہوری اور سیاسی کلچر میں اس طرح کے رویوں کی کوئی جگہ نہیں ہوتی۔،۔
مصطفے کمال کا ایم کیو ایم کے مدِ مقابل آ جانااور ایک نئی سیاسی جماعت بنا لینا کسی کیلئے حیرانگی کا باعث نہیں ہونا چائیے کیونکہ ایم کیو ایم نے جو کچھ بویا ہوا ہے اس نے وہی کاٹنا ہے۔خون ریزی کا تحفہ دینے کے بعد ایم کیو ایم کو علم ہوجا نا چائیے تھا کہ ظلم سدا پھلتا پھولتا نہیں ہے لہذا س کا ایک دن خاتمہ یقینی ہوتا ہے ۔نفرت کا شعلہ ایک دن بجھ جاتا ہے اور ظالم ایک دن خود اپنی بڑھکائی ہوئی آگ میں جل بھن کر راکھ ہو جا تا ہے ۔ نفرت ایک منفی جذبہ ہے لہذا اس پر سدا دوکانداری چمکائی نہیں جا سکتی۔نفرت ایک مقررہ مدت تلک تو اپنا سحر دکھا سکتی ہے لیکن اسے بالآخر کسی مثبت سوچ کے سامنے سرنگوں ہونا ہوتا ہے یہی قانونِ فطرت ہے اور معاشرے اسی طرح سے ارتقائی منازل طے کرتے ہیں۔
سائوتھ ایشیا میں کراچی کی اپنی اہمیت مسلمہ ہے جسے پاک چائنا اقتصادی راہداری نے اور بھی اہم بنا دیا ہے لہذا شہرِ کراچی میں امن کا قیام نا گزیر ہے۔وہ مقتدر حلقے جن کے سامنے سارے سرنگوں رہتے ہیں انھوں نے ہی تو چین کو امن کی ضمانت دی ہوئی ہے لہذا ان کا فرضِ اولین ہے کہ وہ کراچی کو بد امنی کی دلدل سے لکال کر امن کی شاہراہ پر ڈالیں اور اس کیلئے اگر بتِ کافری بھی راہ میں آئے تو اس کا بھی صفایا کر دیا جائے۔مصطفے کمال کا ایم کیو ایم کے گھڑھ میں ایم کیو ایم سے بغاوت کر کے اپنی نئی جماعت (پاک سر زمین ) بنا لینا انہی مقتدر حلقوں کی پشت پناہی کے بغیر ناممکن تھا ۔شائد یہی وجہ ہے کہ بہت سے پرندے ایم کیو ایم کی شاخوں سے اتر کر مصطفے کمال کے ساتھ دانہ چگنے لگ پڑ ے ہیں جس سے ایم کیو ایم کی فاتحہ خوانی کا عمل دھیرے دھیرے مکمل ہوتا جائیگا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پی پی پی بھی نئی جماعت کی تشکیل سے متاثرہو گی،جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف کے بہت سے اہم راہنما بھی مصطفے کما ل کے کارواں کا حصہ بن جائیں گئے اور یوں امن کی جانب وہ سفر شروع ہو گا جو ہر پاکستانی کی دلی آرزو ہے۔ کسی کو دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتیں اسی طرح سے بنی ہیں۔مجھے ان جماعتوں کے چہروں سے نقاب اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اہلِ نظر اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ وہ کون سی جماعتیں ہیں جو اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے نیچے زندہ رہنے میں اپنی بقا سمجھتی ہیں۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین پیپلز ادبی فورم)