اسلام آباد(مانیٹرنگ نیوز)جمعیت علمائے اسلام میں مولانا فضل الرحمن کا سکہ برقرار تھا اور ہے اور مولانا محمد خان شیرانی اور حافظ حسین احمد جیسی قدآور شخصیات کے سامنے آنے کے باوجود پارٹی مولانا فضل الرحمن کے موقف سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے۔ اسلام آباد کے سینئر صحافی اور صف اول کے تجزیہ نگار فاروق اقدس جوکہ جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمن کے قریبی ذرائع کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے صدر کے خلاف بغاوت کرنے والا تنظیمی ارکان پر مشتمل گروپ پس منظر میں چلا گیا اور مولانا فضل الرحمن کی قیادت کو چیلنج کرنے کے سمیت ان کے خلاف سرگرمیوں اور جے۔یو۔آئی کے اندربڑا گروپ قائم کرنے کی کوششوں کو بھی کامیابی حاصل نہیں ہوسکی ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ گروپ سینیٹ کے انتخابات میں جے۔یو۔آئی اور پی۔ڈی۔ایم کے خلاف ’’کرداراداکرنے‘‘ کی کوشش اورخواہش بھی رکھتا تھا لیکن مطلوبہ مقاصد کیلئے پذیرائی اوررسائی حاصل نہ ہونے کے بعد خاموشی اختیار کرلی گئی۔یاد رہے کہ جے یو آئی میں مولانا فضل الرحمن کے بعد اہم حیثیت کے حامل مولانا محمد خان شیرانی نے جنھیں مولانا فضل الرحمن کے معتمد خاص کی اہمیت حاصل تھی انھوں نے تقریباً چارماہ قبل دسمبر 2020 کے وسط میں مولانا فضل الرحمن کی حکومت کے خلاف سرگرمیوں پر احتجاج کرتے ہوئے ان پر شدید نوعیت کے الزامات عائد کیے تھے اور ان کی جانب سے حکومت کے خلاف احتجاجی اقدامات پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے پارٹی پالیسی اور منشور کے منافی قرار دیا تھا۔جبکہ اس گروپ میں شامل جے۔یو۔آئی کے ایک اہم رکن حافظ حسین احمد نے مولانا فضل الرحمن پربیرون ممالک سے خطیر فنڈز اوربعض مراعات لینے کے الزامات عائد کر کے میڈیا کی توجہ حاصل کی تھی۔ ایک موقعہ پر مولانا شیرانی نے اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہا تھا کہ اگر وہ عرب ممالک جن کا اسرائیل سے براہ راست تنازعہ ہے وہ اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں تو پھر پاکستان کو بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔ جس کے بعد مولانا فضل الرحمن نے جے یو آئی کی مرکزی مشاورتی کونسل کا اجلاس بلا کربغاوت اور الزامات عائد کرنے والے گروپ جس کی سربراہی مولانا محمد شیرانی کر رہے تھے سمیت دیگر تین ارکان حافظ حسین احمد، مولانا گل نصیب اور شجاع الملک کے خلاف تنظیمی نظم وضبط اور پارٹی پالیسی کے خلاف بیانات دینے پر جے۔یو۔آئی سے فارغ کر دیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بغاوت کرنے اور پارٹی میں انتشار پیدا کرنے پر مولانا فضل الرحمن نے بعض اداروں پرتنقید کرتے ہوئے انھیں اس صورتحال کا ذمہ دار قرار دیا تھا اور اسے ان کی جانب سے اپوزیشن کی سیاست میں مداخلت قرار دیتے ہوئے ناپسندیدگی کا بھی اظہار کیا تھا۔