اسلام آباد(یس اردو نیوز)قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ طور پر لاپتا ہونے کے معاملے پر احتجاجاً واک آؤٹ کا فیصلہ کیا۔ وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری سے درخواست کی کہ وہ وزارت داخلہ سے معاملے پر جواب طلب کرلیں۔پیپلزپارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے ایوان میں اسلام آباد سے مبینہ طور پر لاپتا کیے جانے والے صحافی مطیع اللہ جان کے معاملے پر توجہ دلائی کہ پارلیمنٹ کی پریس گیلری خالی ہے ۔ جس میں موجود صحافیوں نے سینئر صحافی مطیع اللہ جان کی پولیس حراسیت کیخلاف احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ اس حوالے سے نوید قمر نے کہا کہ صحافی مطیع اللہ جان کو لاپتہ کیے جانے کا واقعہ کسی فرد واحد کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ میڈیا کو خاموش کرانے کا حربہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں صحافتی آذادی دبائو کا شکار ہے۔ جس کیلیے میر شکیل الرحمن کی مثال سامنے ہے۔ ‘یہ واقعہ ہمارے لیے باعث شرمندگی ہے’۔ نوید قمر نے کہا کہ ‘ہم صحافی مطیع اللہ جان کے مبینہ طور پر لاپتا کیے جانے کی مذمت کرتے ہیں اور احتجاجاً واک آؤٹ کررہے ہیں’۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور پارلیمانی لیڈر خواجہ آصف نے سید نوید قمر کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اپنے کام ٹھیک کرلے ۔ انھوں نے کہا کہ میر شکیل الرحمٰن صاحب کو 128 دن سے غیر قانونی طورپر زیرحراست رکھا گیا ہے اور آج سینئر صحافی لاپتہ ہوگئے ہیں۔ حکومت کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ جبکہ میڈیا کی آزادی جمہوریت کا حسن ہے۔ انہوں نے کہا کہ آئین میں بھی آزادی صحافت ایک بنیادی حقوق ہے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ حقائق مسخ نہیں کیے جا سکتے۔ واضح رہے کہ سینئر صحافی مطیع اللہ جان اسلام آباد سے مبینہ طور پر لاپتا ہوگئے اور اس بات کی تصدیق ان کے اہلیہ نے بھی کردی۔ رپورٹس میں بتایا گیا کہ مطیع اللہ جان کی گاڑی اسلام آباد کے سیکٹر جی 6 میں اسکول کے باہر کھڑی تھی اور اس میں ان کا ایک موبائل فون بھی موجود تھا۔ اطلاع ملنے کے بعد پولیس اسٹیشن آبپارہ کی نفری مذکورہ مقام پر پہنچی، سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) عمر خان اور دیگر پولیس افسران بھی موقع پر موجود تھے۔
سوشل میڈیا پر ایک صحافی نے مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کی سی سی ٹی وی فوٹیج شیئر کی تاہم پولیس نے اس کی تصدیق کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کے خلاف ایک متنازع ٹوئٹ پر سپریم کورٹ میں توہین عدالت کا از خود نوٹس زیر سماعت ہے جس کی سماعت رواں ہفتے ہوگی۔
قبل ازیں آج ہی کے روز صبح 11 بج کر 5 منٹ پر انہوں نے ایک صحافی کا انٹرویو ری ٹوئٹ کیا تھا اور اس کے ساتھ لکھا تھا کہ ’یہ ان لوگوں کی توجہ کے لیے ہے جو پاکستان میں قانون کی حکمرانی کے مصنوعی ایئر کنڈیشنڈ ماحول میں بیٹھتے ہیں اور جو سمجھتے ہیں کہ تنقید انسان کے ناقابل تسخیر وقار کی خلاف ورزی سے بھی بڑا جرم ہے‘۔
This is how journalist Matiullah Jan was picked. Police official is also seen. pic.twitter.com/1fSDCzpahQ
— Inamullah Khattak (@Inamkhattakpak) July 21, 2020