تحریر : سید توقیر زیدی
تحریک انصاف 7 اگست اور عوامی تحریک 6 اگست سے حکومت کے خلاف میدان میں نکلیں گی۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ستمبر میں احتجاج کی تیاری کرلی۔ تحریک انصاف ہر ہفتے الگ الگ شہروں میں مارچ کرے گی۔ ان ریلیوں کا مقصد عوام میں کرپشن کے خلاف شعور کی بیداری اور حکومت پر پاناما لیکس کی تحقیقات میں پہلے وزیراعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کا احتساب کرنے کے لیے دبائو بڑھانا ہے۔ عمران خان کے بقول کرپٹ اشرافیہ یا مستحکم جمہوریت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔
عوامی تحریک نے حکومت کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون کے قصاص اور پانامہ لیکس کی تحقیقات کے لیے، ملک گیر احتجاجی مظاہرے کرنے اور علامتی دھرنے کا اعلان کردیا ہے۔ اس وقت ساری جماعتیں، حکومت کے خلاف ایک صفحہ پر کھڑی نظرآ رہی ہیں۔ اس پر بحث تو ہو سکتی ہے، کہ یہ تحریکوں، مظاہروں یا دھرنوں کے لیے سازگار وقت ہے یا نہیں، لیکن حکومت کو بھی اپنے رویے پر غورکرنا چاہیے کہ آخرکیا وجہ ہے کہ اپوزیشن کے پاس تحریکیں چلانے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا۔ پاناما لیکس کا ایشو آیا تھا، تو توقع تھی کہ حکومت اور اپوزیشن مل کر راستہ نکال لیں گی، لیکن حکومت نے پاناما کے مسئلے پر جس طرح ٹال مٹول کی، اس سے مذاکرات ٹوٹ گئے۔ ویسے تو پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز (ٹرمز آف ریفرنسز) کی تشکیل کے معاملے پر پارلیمانی پارٹی کا اجلاس کل 3اگست کو بلائے جانے کا امکان ہے۔
جبکہ پیپلزپارٹی کے مرکزی رہنما اعتزاز احسن کا کہنا ہے اپوزیشن نے اپنے ٹی او آرز دے دیئے ہیں اور ان کو حتمی سمجھتی ہے۔ جبکہ حکومت چکر چلا رہی ہے۔ ایک طرف حکومت رونا روتی ہے کہ اپوزیشن کام نہیں کرنے دیتی۔ دوسری طرف اپوزیشن کی بات بھی نہیں مانتی، یک طرفہ ٹریفک کب تک چلے گی۔ بہتر تو یہ ہے کہ حکومت اپنے رویے میں لچک پیدا کرے اور ایسی صورت حال نہ پیدا کرے کہ اپوزیشن کو مجبوراً سڑکوں پر آنا پڑے اور اس سے بھی بہتر یہ ہے کہ یہ معاملات سڑکوں پر لانے کی بجائے قانونی اداروں اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کر طے کریں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اپوزیشن کو احتجاج کے لیے ہڑتالیں، دھرنے اور مظاہرے سمیت ہر طریقہ اور ذریعہ اختیار کرنے کا حق ہے، لیکن اس سے قومی معیشت کو نقصان پہنچنے کا بھی احتمال رہتا ہے۔
دھرنے اور تحریکیں صرف اس صورت میں موثر اور کارگر ہو سکتی ہیں کہ جب اپوزیشن میں کامل اتحاد و اتفاق پایا جاتا ہو،اور موقف کے بارے میں عوام کو پختہ یقین ہوکہ ان تحریکوں کے پیچھے ذاتی عناد اور دشمنی کے بجائے ملک و قوم کا مفاد وابستہ ہے۔ اگر بالفرض، اپوزیشن اور حکومت کے ٹی او آرز میں کافی فرق ہوا اور فریقین اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے، تو اس میںنقصان معیشت کا ہوگا اور معیشت کو نقصان کے الزام سے اپوزیشن بھی نہیں بچ سکے گی، خواہ اس کا موقف صد فیصد درست ہو۔ اگر ان تحریکوں کا مقصد حکومت پر دبائو بڑھانا ہے، تو اپوزیشن کو یہ بھی ذہن میں رکھنا ہوگا کہ چونکہ حکومت کی پارلیمنٹ میں اکثریت ہے۔ اگر حکومت نہ مانی، تو پھر کیا ہوگا۔ صحیح طریقہ کار یہی ہے کہ اپوزیشن حکومت کو ہر آئینی اور قانونی طریقے سے دبائو میں لائے، لیکن یہ بھی خدشہ رہتا ہے کہ بعض اوقات تحریکیں اور احتجاج لیڈروں کے ہاتھ سے نکل کر تشدد کی راہ اختیار کرلیتے ہیں۔ اگر ایسا ہوا تو یہ بدقسمتی ہو گی۔
جب تحریکیں تشدد کی طرف چل پڑتی ہیں تو انہیں کنٹرول کرنے میں بڑے بڑے لیڈر ناکام ہو جاتے ہیں۔ دبائو کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن جب تک کامیابی کا کامل یقین نہ ہو جائے ، ہمہ گیر تحریک سے گریز کرنا ہی بہتر ہوگا۔ خود حکومت خواہ وہ کتنی مضبوط کیوں نہ ہو، اگر اس کا موقف کمزور ہے، تو اس کے لیے ملک و قوم کے مفاد میں بہتر یہی ہے کہ اپوزیشن کو نظرانداز نہ کرے۔
جہاں تک پاناما لیکس کا تعلق ہے۔ اس میں وزیراعظم اور ان کے خاندان کا نام آیا ہے۔ بعض دوسرے ملکوں میں جن جن لیڈروں کے نام آئے، وہ اقتدار سے مستعفی ہو گئے یا اپوزیشن کے لیے قابل قبول احتساب کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ ان مثالوں پر قیاس کرتے ہوئے اپوزیشن کا یہ مطالبہ قابل غور ہے کہ احتساب وزیراعظم اور ان کے خاندان سے شروع ہو۔
احتساب کے ضوابط کار طے کرلیے جائیں۔ پاناما لیکس کو افشا ہوئے تین ماہ سے زائد ہوگئے ہیں۔ دوسرے ملکوں میں جو ہونا تھا، ہو چکا لیکن ہمارے ہاں اس معاملے کو لٹکایا جا رہا ہے اور بلاجواز۔ پھر احتساب صرف وزیراعظم اور ان کے خاندان سے شروع ہو کر بہت دور تک جائے گا۔ ملک سے گئی دولت کو واپس آنا چاہیے۔ حکومت کو احتساب سے نہیں کترانا چاہیے۔ احتساب ہو کر رہے گا، آج ہو یا کل۔ ملک کو دھرنوں، احتجاج اور مظاہروںکے چکر میں ڈالنا دانشمندی نہیں۔
تحریر : سید توقیر زیدی