اسلام آباد: قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے دوران قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کو عوام دشمن قرار دے کر مسترد کرتے ہوئے واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔
اسپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران شہباز شریف نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت کا بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے جسے مسترد کرتے ہیں۔
شہباز شریف نے وفاقی بجٹ واپس لینے اور عوامی خواہشات کے مطابق نیا بجٹ لانے کا مطالبہ کیا۔
قائد حزب اختلاف نے نئے بجٹ میں بجلی اور گیس کی قیمتیں مئی 2018 کی سطح پر لانے، مزدور کی کم از کم تنخواہ 20 ہزار روپے کرنے، تیل اور گھی پر عائد ٹیکس واپس لینے، گریڈ 16 کے ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اضافہ اور ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ والے کو ٹیکس استثنا دینے کا مطالبہ کیا۔
شہباز شریف نے کہا کہ حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کی جو ٹھکرادی گئی، عمران خان کہتے تھے چیخیں نکال دیں گے واقعی دس ماہ میں عوام کی چیخیں نکال دی ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ عمران خان کہتے تھے خودکشی کرلیں گے لیکن آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے اور آج یہ عوام کو خودکشی کے دھانے پر لے آئے ہیں، یہ بد ترین اقدامات سے پاکستان کو معاشی جہنم بنا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی تیسرے مہینے آئی ایم ایف کے پاس جائے گی کہ ہدف پورے نہ کرسکے، پھر قومی سطح پر سمجھوتے ہوں گے جس سے پاکستان کی معیشت اور خراب ہوگی۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ بجٹ ظلم کی تلوار ہے جو عام آدمی کی گردن کاٹنے اور کسان کی روزی چھیننے آیا ہے، عوام کی بھلائی کیلیے بجٹ ہوتا تو پانچ چیزیں ضروری تھیں، اس میں سب سے پہلے ملازمتیں ہونی چاہئیں تھیں، مہنگائی کو دو یا ڈیڑھ فیصد پر لاتے۔
شہباز شریف نے کہا کہ آئی ایم ایف نے وینز ویلا کا بھٹا بٹھا دیا، پاکستان کا بجٹ بھی آئی ایم ایف نے بنایا ہے۔
>انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کنٹینر پر کہا تھا ریونیو 8 ہزار ارب پر لے جاؤں گا، یہ تو 4 ہزار ارب کا ٹارگٹ بھی پورا نہ کر سکے تو 5 ہزار 500 ارب کے ٹیکس کا ہدف کہاں سے پورا کریں گے، ہماری حکومت نے ٹیکس کا ٹارگٹ پورا کیا تھا۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ یہ کہتے تھے (ن) لیگ کی حکومت بلاواسطہ ٹیکس لگاتی ہے جو غریب کا معاشی قتل ہے، اس بجٹ میں 5500 کے ریونیو ٹارگٹ کیلیے 70 فیصد بلاواسطہ ٹیکسز ہیں، یہ نیا پاکستان بنانے آئے تھے بدترین اقدامات سے پاکستان کو معاشی جہنم بنا رہے ہیں۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ مہنگائی نے غریب آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے، ہم نے حکومت سنبھالی تو مہنگائی کی شرح 12 فیصد تھی، دن رات محنت کی مہنگائی کی شرح 12 فیصد سے کم کرکے 3 فیصد پر لائے۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت ہمیشہ ڈھنڈورا پیٹتی تھی کہ سوشل سیکٹر کی چیمپئن ہے، تعلیم اور علاج میں ان کا کوئی ثانی نہیں لیکن اب وہ ہمارے منصوبوں کی تختیاں اکھاڑ کر آپس میں لڑ رہے ہیں نئی تختی میں لگاؤں گا، یہ حال ہے ان کی کارکردگی اور بد ترین نا اہلی کا۔
شہبازشریف نے حکومت سے بجٹ واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عوامی خواہشات کا عکاس بجٹ دوبارہ پیش کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ گھی اور تیل پر ٹیکس واپس لیا جائے، مزدور کی کم سے کم اجرت 20 ہزار روپے کی جائے، گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہ میں 50 فیصد تک اضافہ کیا جائے اور ایک لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ والوں کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا جائے۔
اجلاس کے دوران اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر گرفتار اراکین کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے مطالبہ کیا کہ آصف زرداری، خواجہ سعد رفیق، محسن داوڑ اور علی وزیر ہزاروں ووٹ لے کر اسمبلی میں آئے اور بجٹ کے انتہائی اہم سیشن میں انہیں اپنے علاقوں کی نمائندگی کرنی چاہیے۔
شہباز شریف نے کہا کہ اسپیکر کے کندھوں پر بڑی ذمے داری ہے کہ گرفتار ارکان کو ایوان میں لائیں، امید ہے اسپیکر ان ارکان کو ایوان میں لائیں گے۔
اس موقع پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے، بجٹ سیشن اہم ہے اور ایک ہفتے سے چل رہا ہے لیکن ارکان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جارہے، موجودہ صورتحال جمہوریت اور ایوان کی توہین ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اسپیکر اسمبلی کا اپنی کرسی اور عہدے سے وعدہ پورا نہیں ہورہا، آصف زرداری اور دیگر کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں۔