تحریر : طارق حسین بٹ شان
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اپوزیشن کا موجودہ سیاسی اتحاد خوف کا شکار ہے کیونکہ عدالتی تحقیقات کے نتیجے میں ان کے اراکین کی گردن بھی ناپی جا سکتی ہے۔ موجودہ اتحاد چوں چوں کا مربہ ہے جس میں کوئی چیز بھی قدرِ مشترک نہیں ہے۔ ایک طرف آصف علی زرداری ہیں جن کے خلاف ایک زمانے میں پاکستان تحریک انصاف کرپشن کے الزامات پر ان کے خلاف تحریک چلائے ہوئے تھی۔ عمران خان کے دل میں اب بھی آصف علی زرداری کے لئے کوئی نرم گوشہ نہیں ہے لیکن اپنے ساتھیوں کے دبائو کی وجہ سے وہ ہاتھ ہولا رکھے ہوئے ہیں وگرنہ یہ ناممکن ہے کہ وہ پی پی پی اور آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے الزامات کو واپس لے لیں۔
سوئس عدالتوں میں پچاس ملین ڈالر پر انھوں نے جتنی تقریریں کی ہیں اگر انھیں یکجا کیا جائے تو ایک مبسوط کتاب مرتب ہو سکتی ہے لیکن اس وقت میاں محمد نواز شریف عمران خان کی تنقید کا مرکز بنے ہوئے ہیں جبکہ ماضی میں پی پی پی اور آصف علی زرداری ان کی تنقید کا مرکز تھے۔عمران خان کو اگر سیاست کرنی ہے تو انھیں ساتھیوں کے دبائو کی بجائے میرٹ پر فیصلے کرنے چائیں ۔یہ نہیں ہونا چائیے کہ میاں محمد نواز شریف کی مخالفت میں وہ ان لوگوں کی گود میں بیٹھ جائیں جھنیں وہ اس ملک کی تباہی کے ذمہ دار تصور کرتے تھے ۔یہ سچ ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حرفِ آخر نہیں ہوتی لیکن پھر بھی سیاست کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن کے تحت سیاسی جماعتیں عوام میں اپنی پہچان بناتی ہیں ۔جیسے ہی کوئی لیڈر ان اصولوں سے انحراف کرتا ہے اس جماعت کی ساری مقبولیت ہوا میں تحلیل ہو جاتی ہے۔
پی پی پی نے جس دن مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہاتھ ملایا اس دن پی پی پی پنجاب سے رخصت ہو گئی وہ جیالے جو ساری عمر مسلم لیگ (ن) کے عتاب کو برداشت کرتے رہے وہ مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر شاہراہِ سیاست پر کیسے چل سکتے تھے لہذا ان کیلئے دو راستے تھے یا تو وہ پی پی پی سے علیحدہ ہو جاتے یا پھر اپنی بے عزتی برداشت کر تے رہتے ۔جیالوں نے بے عزتی برداشت کرنے کی بجائے پی پی پی سے ناطہ توڑ لیا اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی کٹر مخالف جماعت تحریکِ نصاف میں پناہ ڈھونڈ لی۔جیالوں کا تحریکِ انصاف کا رخ کرنا تھا کہ یہ جماعت دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کی سب سے مقبول جماعت بن گئی۔
جیالے جہان بھی جائیں گئے اپنا رنگ دکھا کر رہیں گئے کیونکہ ان کے اندر ظلم و جبر کے سامنے ڈٹ جانے کی صفت پائی جاتی ہے۔جن کی تربیت ذولفقار علی بھٹو جیسے نابغہ روزگار لیڈر کے ہاتھوں ہوئی ہو انھیں سیاسی میدان میں کون مات دے سکتا ہے؟جیالوں کے من میں کرپشن کے خلاف جو نفرت ہے،اونچ نیچ کے خلاف جو بغاوت ہے ،تفاخر کے خالف جو لاوا ہے اس کا ادراک عمران خان نے بر وقت کرتے ہوئے ایسے تمام موضو عات کو اپنی سیاسی زندگی کا نصب العین بنا لیا اور پھر عوام نے عمران خان کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے پاکستان کے سب سے مقبول راہنما بن کر سامنے آئے۔،۔ پاناما لیکس پر عمران خان کے موقف میں ابھی تک کوئی لچک اور تبدیلی نہیں ہے کیونکہ وہ اس سنہری موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا نا چاہتے ہیں،انھیں یقین ہے کہ اسی پاناما لیکس کے قضیہ سے ہی وہ میاں محمد نواز شریف کو زیر کر سکتے ہیں اورانھیں اقتدار سے بے دخل کر کے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ان کے ساتھ اتحاد میں کوئی بھی لیڈر مخلص نہیں ہے کیونکہ ان ساروں کے ہاتھ کرپشن سے رنگے ہوئے ہیں ۔ ایک جماعت اسلامی ہے جو صدقِ دل سے کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے کیونکہ اس کی لیڈر شپ ہر قسم کی کرپشن سے پاک و صاف ہے۔
پی پی پی میں تو ایک ڈھوندو ہزار ملتے ہیں والا معاملہ ہے لہذا پی پی پی کے ساتھ چلنا عمران خان کیلئے گھاٹے کا سودا ہو گا۔عمران خان کی رفاقت سے یہ تو ممکن ہے کہ پی پی پی کو کچھ افاقہ ہو جائے اور پی پی پی کے تنِ مردہ میں جان پڑ جائے لیکن اس سے عمران خان سراسر گھاٹے میں رہیں گئے ۔لہذاعمران خان اس طرح کے منفی اتحادسے جتنی جلدی نکل جائیں ان کیلئے اتنا ہی بہتر ہو گا وگرنہ وہ بھی نمک کی کان میں جا کرنمک ہو جائیں گئے۔اس مجوزہ اتحاد کو باہر کی بجائے اندرسے زیادہ خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس اتحاد میں عمران خان اور جماعت اسلامی کے سوا کرپشن کے خلاف کوئی سنجیدہ نہیں ہے لہذا انھیں باہم مل کر کرپشن کے خلاف سنجیدہ کوششیں کرنی چائیں۔قوم کرپشن کا خاتمہ چاہتی ہے لیکن اگر پرانے کرپٹ چہروں کے ساتھ تحریکِ انصاف آگے بڑھنے کی کوشش کریگی تو اسے نقصان اٹھا نا پڑیگا۔ابھی توکل کی بات ہے کہ سوئس اکاوئنٹ پر ایک طوفان اٹھا ہوا تھا۔
وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو سوئس عدالتو کو خط نہ لکھنے کی وجہ سے وزارتِ عظمی سے ہاتھ دھونے پڑے تھے لہذا اب اگر عمران خان اسی جماعت کے ساتھ مل کر میاں محمد نواز شریف کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کریں گئے تو اس تحریک کا ناکام ہونا یقینی ہو گا۔تمام لوگوں کو ہمہ وقت بیوقوف نہیں بنایا جا سکتالہذا تحریکِ انصاف کیلئے بہتر یہی ہے کہ دوسروں پر تکیہ کرنے کی بجائے وہ اپنے بازئوں پر بھروسہ کرے۔،۔ پی پی پی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ اندر سے میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔وہ میاں محمد نواز شریف کا استعفی نہیں چاہتی بلکہ اس مسئلے کو افہام و تفہیم سے حل کرنا چاہتی ہے۔
پی پی پی کی کمزور پوزیشن کی وجہ سے تحریکِ انصاف کو حزیمت اٹھا نی پڑ رہی ہے اور اس کے استعفی طلب کرنے کے مطالبے میں وہ گن گرج نہیں رہی جو اس کے اکیلے میدان میں اترتے وقت تھی۔ہمارے ہاں کچھ جماعتیں کاغذی ہوتی ہیں لیکن وہ اتحاد میں شامل ہونے کی بڑی متمنی ہوتی ہیں اور اتحاد میں شامل ہونے کے بعد دھونس دھندلی پر اتر آتی ہیں حالانکہ ان کی عوام میں کوئی پوزیشن نہیں ہوتی۔اتحاد کو بچانے کیلئے کبھی کبھی ان کی ہٹ دھرمی بھی قبول کرنی پڑتی ہے کیونکہ ایسی جماعتوں سے سرد مہری اتحاد کی یکجہتی کو متاثر کر سکتی ہے۔ایک طرف اگر اپوزیشن میں نو جماعتیں ہیں تو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ بھی کافی جماعتیں ہیں جن میں جمعیت العلمائے اسلام سرِ فہرست ہے۔اب ان دونوں اتحادوں میںایک طرف مسلم لیگ (ن) کی قوت ہے جبکہ دوسری طرف یہی قوت تحریکِ انصاف کے پاس ہے۔مسلم لیگ (ن) کو اس وقت تحریکِ انصاف پر سبقت حاصل ہے کیونکہ اس کے ساتھ جو جماعتیں کھڑی ہیں وہ اس کے ساتھ مخلص ہیں جبکہ اپوزیشن اتحاد کی اکثر جماعتیں موقعہ پرست ہیں۔
جہاں انھیں اپنا الو سیدھا ہوتا ہوا نظر تا ہے وہ اسی جانب نکل جاتی ہیں ۔پی پی پی عمران خان کے ساتھ سیاست کر رہی ہے وہ بظاہر عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اندر سے وہ میاں محمد نواز شریف کے ساتھ ہے کیونکہ میاں محمد نواز شریف کی ہار پی پی پی کیلئے بھی راستے مسدود کر سکتی ہے کیونکہ پی پی پی کی پیشانی پر کرپشن کا جو ٹیکہ لگا ہوا ہے وہ اسے بھی لے ڈوبے گا۔پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ پاناما لیکس پر سیاست بازی ہو تی رہے ۔عوام پاناما لیکس میں الجھے رہیں اور وہ آرام سے حکومت کرتے رہیں ۔کراچی میں رینجرز کے ہاتھوں پی پی پی اور ایم کیو ایم کی جو درگت بن رہی ہے اس سے تو یہی تاثر ابھرتا ہے کہ پاناما لیکس کو کوئی بڑی جماعت منطقی انجام تک پہنچا نا نہیں چاہتی۔
پاناما لیکس کے سکینڈل کو تین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عمران خان کے علاوہ کون سی جماعت ہے جس نے کرپشن کے خلاف عوام کو متحرک کیا ہے؟کونسی جماعت ہے جس نے جلسے جلوس کا سہارا لیا ہے؟یقین کیجئے اگر عمران خان نہ ہوتے تو جتنا شور مچا ہے اس کا عشرِ عشیر بھی نہ مچتا۔عوام کی آنکھوں میں حسب روائت دھول ن جھونک دی جاتی اورپھر مٹی پائو والا معاملہ ہو جاتا جس سے سارے کرپٹ سیاستدان مامون و محفوظ ہو جاتے لیکن عمران خان کی موجودگی میں ایسا ہونا ناممکن ہے کیونکہ تحریک انصاف کی بقا ہی کرپشن کے خلاف جنگ میں مضمر ہے۔ خدا کرے کرپشن کے خلاف عمران خان اس جنگ میں سرخرو ہو کر نکلیں لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیںکیونکہ کوئی سیاسی جماعت کرپشن کو ختم کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے کیونکہ کرپشن کا خاتمہ ان کی اپنی موت ہے۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین پیپلز ادبی فورم)