چنانچہ بارہ نومبر دو ہزار آٹھ کو کراچی یونیورسٹی کے آرٹس آڈیٹوریم میں اس چیئر کے باضابطہ افتتاح کی تقریب ہوئی۔اس موقع پر وزیرِ اعلی قائم علی شاہ نے پچیس ملین روپے کی ابتدائی گرانٹ اور وزیرِ اطلاعات شازیہ مری نے بھی اپنے محکمے کی جانب سے دو لاکھ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔وزیرِ اعلی نے وائس چانسلر پیرزادہ قاسم کی یہ تجویز بھی منظور کر لی کہ یوینورسٹی میں بین الاقوامی معیار کا دو ہزار نشستوںپرمشتمل بے نظیر بھٹو آڈیٹوریم بھی تعمیر کیا جائے گا۔ یوں ملک میں پہلی بے نظیر بھٹو چیئر قائم ہوئی۔یہ وہ اعزاز ہے جو کسی یونیورسٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کو بھی نہیں دیا تھا۔
اس چیئر کی دیکھ بھال کے لیے ایک اعلی ایڈوائزری کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا کام یہ تھا کہ وہ نہ صرف چیئر کے ڈائریکٹر کا انتخاب کرے بلکہ شعبے کی کارکردگی پر بھی نظر رکھے۔یہ کمیٹی سینیٹر تاج حیدر ، این ڈی خان ، پروفیسر مظہر الحق صدیقی ، بربنائے عہدہ صوبائی سیکریٹری ثقافت ، سیکریٹری تعلیم ، وائس چانسلر کراچی یونیورسٹی ، ڈین آف سوشل سائنسز پر مشتمل تھی۔باقاعدہ ڈھانچے کے قیام تک کمیٹی کا سیکریٹری سندھ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلرپروفیسر مظہر الحق صدیقی کو بنایا گیا۔
دو ہزار پندرہ کے اوائل میں بے نظیر بھٹو چیئر کے باقاعدہ ڈائریکٹر کی آسامی مشتہر کی گئی۔جس میں دیگر کے علاوہ یہ شرط بھی تھی کہ امیدوار کا تحقیق و تدریس کا کم ازکم پندرہ برس کا تجربہ ہونا چاہیے۔پی ایچ ڈی کے حامل امیدواروں کو ترجیح دی جائے گی۔مئی دو ہزار پندرہ میں ایڈوائزری کمیٹی نے باقاعدہ انٹرویو کیے۔ایک امیدوار ڈاکٹر شجاع احمد بھی تھے جنہوں نے معاشیات میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور ان کا تدریسی تجربہ بھی پندرہ برس سے زائد تھا۔مگر کمیٹی نے ان کا اس لیے انتخاب نہیں کیا کیونکہ کمیٹی کی نظر میں معیشت کا مضمون چیئر کی تحقیق و تدریس کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں تھا۔چنانچہ ایک اور امیدوار سحر گل بھٹی کا بطور ڈائریکٹر انتخاب ہوا جنہوں نے سندھ یونیورسٹی سے فلاسفی اور سسیکس یونیورسٹی سے پولٹیکل انتھروپولوجی میں ایم اے کیا ہوا تھا اور کراچی یونیورسٹی سے پولٹیکل فلاسفی میں پی ایچ ڈی کر رہی تھیں۔بیس برس سے درس و تدریس اور ڈویلپمنٹ سیکٹر سے وابستہ تھیں۔
اب یہاں سے وہ کہانی شروع ہوتی ہے جس بیان کرنے کے لیے اوپر ساری تمہید باندھی گئی۔ سحر گل بھٹی نے سلیکشن کمیٹی کی جانب سے تقرر نامے کے اجرا کے بعد دو جون دو ہزار پندرہ کو بے نظیر بھٹو چیئر کے باقاعدہ ڈائریکٹر کی حیثیت سے چارج سنبھالا۔دیگر شعبوں کی طرح بے نظیر چیئر کے انتظامی و مالیاتی معاملات بھی متعلقہ ڈائریکٹر کی رضامندی سے یونیورسٹی انتظامیہ دیکھتی ہے۔ لیکن سحر گل کو بطور ڈائریکٹر تدریسی و تحقیقی اختیارات تو دے دیے گئے مگر بجٹ اور مالیاتی کنٹرول کے اختیارات اگلے چھ ماہ تک سابق قائمقام ڈائریکٹر کی تحویل میں ہی رہے اور انھی کے دستخطوں سے چیک جاری ہوتے رہے۔ مثلاً نئے ڈائریکٹر کی تقرری اگرچہ دو جون کو ہوئی۔مگر بارہ جون کو سابق ڈائریکٹر نے اپنے دستخطوں سے تعمیراتی ٹھیکیدار کو ڈھائی کروڑ روپے کی ادائیگی کی۔ اس انتظامی اڑچن پر سوائے چیئر ڈائریکٹر کسی کو بھی اعتراض نہیں تھا۔نہ وائس چانسلر کو ، نہ یونیورسٹی کے ڈائریکٹر فنانس ، ڈائریکٹر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور نہ ہی صوبائی بیورو کریسی کو۔ ڈائریکٹر فنانس سعید شیخ کے بھائی نوید شیخ کی تعیناتی وزیرِ اعلی ہاؤس میں تھی۔
( یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے محترمہ بے نظیر بھٹو کو غلام اسحاق خان نے اس شرط پر اختیار منتقل کیا تھا کہ خارجہ پالیسی کے معاملات حسبِ سابق صاحبزادہ یعقوب علی خان ہی دیکھیں گے تاکہ ضیا الحق کا پالیسی تسلسل برقرار رہے )۔ سحر گل نے دو جون دو ہزار پندرہ کو بطور ڈائریکٹر چارج سنبھالا مگر چیئر کے مالیاتی اختیارات انھیں سولہ دسمبر کو منتقل ہوئے۔بنیادی وجہ تینتالیس کروڑ روپے کا تعمیراتی بجٹ تھا جس کے تحت دو ہزار نشستوں پر مشتمل بے نظیر بھٹو آڈیٹوریم تعمیر ہونا تھا۔مگر اس کے پی سی ون فارم میں نہ پارکنگ کا ذکر تھا نہ الیکٹریکل و مکینکل کام کی کوئی مد تھی۔
پروجیکٹ کی تعمیراتی نگرانی کے لیے ایک کنٹریکٹر شہزاد ایسوسی ایٹس کو طے شدہ رقم یعنی پانچ اعشاریہ انتیس ملین روپے کے بجائے ساڑھے سات ملین روپے کے لگ بھگ ادائیگی کا معاملہ بھی تھا۔نئی ڈائریکٹر پی سی ون فارم میں تبدیلی چاہتی تھیں تاکہ پروجیکٹ کی کمی و نقائص کا بھی ازالہ ہو اور اس کی تکمیل شفاف انداز میں ہو۔ اس کے علاوہ سابق انتظامی دور میں بے نظیر بھٹو چیئر کے بجٹ کے لگ بھگ سوا اکسٹھ ملین روپے بلا جائز اختیار کراچی یونیورسٹی کے اکاؤنٹ میں منتقلی نیز بغیر کنٹریکٹ ایگری منٹ شعبے کے پونے دو ملین روپے سے زائد کے پرچیز آرڈر کی شفافیت پر اٹھنے والا سوال بھی تھا۔ان تمام بے قاعدگیوں کا تذکرہ دو ہزار پندرہ سولہ کی آّڈٹ رپورٹ میں بھی موجود ہے۔
ڈراپ سین۔
جب نئی ڈائریکٹر نے سوالات اٹھانے شروع کیے تو پھر ان کے گرد عرصہ حیات تنگ ہونا شروع ہوگیا۔یونیورسٹی سے متعلقہ سرکاری محکموں تک تار ہلنے شروع ہوئے اور باقاعدہ سالانہ آڈٹ رپورٹ آنے کے تین ماہ بعد ہی بے نظیر بھٹو چیئر کے دو ہزار نو سے سولہ تک کے جامع آڈٹ کا فیصلہ ہوا۔اس آڈٹ کے ذریعے جتنے بھی گھپلے یا مشکوک ادائیگیاں نئی ڈائریکٹر کے مالیاتی چارج سنبھالنے سے پہلے ہوئی تھیں وہ بھی نئی ڈائریکٹر کے کھاتے میں ڈال دی گئیں۔مثلاً جون دو ہزار چودہ میں بے نظیر بھٹو چیئر کے بجٹ سے جو سوا اکسٹھ ملین روپے ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے کراچی یونیورسٹی کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئے تھے۔ اس بے قاعدگی کا الزام بھی اس ڈائریکٹر کے کھاتے میں ڈال دیا گیا کہ جس کا تقرر ہی اس بے قاعدگی کے ایک سال بعد ہوا تھا۔
یہ غالباً دنیا کی پہلی سرسری آڈٹ رپورٹ ہے کہ جو باقاعدہ سالانہ آڈٹ رپورٹ آنے اور اس کی منظوری کے تین ماہ بعد ہی آرڈر کر دی گئی اور اس میں مالیاتی امور کے علاوہ نئے ڈائریکٹر کی تقرری اور اہلیت پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔یعنی یہ کہ ان کا تقرر ہی قواعد و ضوابط کے برخلاف ہوا ہے ( اس کا مطلب یہ ہوا کہ سلیکشن کمیٹی کے ارکان بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں)۔
مگر عجیب بات ہے کہ جس ڈائریکٹر کا تقرر بقول آڈیٹر قواعد و ضوابط کے خلاف ہوا اسی ڈائریکٹر کی کارکردگی کی بنیاد پر ایڈوائزری کمیٹی نے یونیورسٹی سنڈیکیٹ سے سفارش کی کہ ان کے عہدے کی معیاد میں مزید دو برس کی توسیع کر دی جائے۔سنڈیکیٹ نے اس سفارش کی منظوری دے دی۔مگر یونیورسٹی انتظامیہ نے اس سفارش کو پامال کرتے ہوئے ڈائریکٹر بے نظیر چیئر سحر گل کو جون دو ہزار سترہ میں ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔یہ حکم سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا اور عدالت نے سحرگل کو پیٹیشن کا فیصلہ ہونے تک اپنے عہدے پر برقرار رہنے کا حکم دیا۔
یونیورسٹی نے بے نظیر ْچیر کے عملے کی تنخواہیں اور روزمرہ شعبہ جاتی اخراجات روک لیے اور عملے کے احتجاجی مظاہرے کے بعد تنخواہیں جاری کیں۔نامعلوم افراد نے شعبے کے احاطے میں لگے سنگی بنچ توڑ دیے۔ یونیورسٹی کے اندر اور باہر نصب بے نظیر بھٹو چیئر کے پانچ سائن بورڈ بھی کوئی اکھاڑ کے لے گیا۔ گویا جس مقصد کے لیے یہ چیئر قائم ہوئی تھی یعنی تحقیق و تدریس۔وہ تو گیا بھاڑ میں۔اب یہ چیئر وہ گائے بن چکی ہے کہ جسے ہر کوئی اپنی اپنی جانب کھینچ رہا ہے۔
اس وقت یونیورسٹی انتظامیہ کا دعوی ہے کہ چیئر کا انتظامی چارج ڈین سوشل سائنسز کے پاس ہے۔مگر سندھ ہائی کورٹ سحر گل بھٹی کو ہی ڈائریکٹر تسلیم کرتی ہے۔جب کہ چیئر کی اعلی ایڈوائزری کمیٹی دم سادھے یہ تماشا دیکھ رہی ہے۔ کیونکہ کہانی محض انتظامی نہیں مالیاتی بھی ہے اور یہ مالیاتی ڈانڈے بے نظیر بھٹو چیئر سے شروع ہو کر وائس چانسلر سیکرٹیریٹ تک ہی ختم نہیں ہوتے بلکہ یہاں سے جانے کہاں کہاں تک جاتے ہیں۔( سابق وائس چانسلر ڈاکٹر محمد قیصر کے خلاف نیب قومی خزانے کو چھیاسٹھ ملین روپے کا نقصان پہنچانے کے الزامات کی تحقیقات کر رہا ہے۔ان کی مدتِ عہدہ گذشتہ برس مارچ میں ختم ہونی تھی مگر اس وقت کے گورنر عشرت العباد نے نئے وائس چانسلر کی تقرری تک مالی بے قاعدگیوں کے الزامات کے باوجود ان کے عہدے میں توسیع کردی۔مئی میں نیب نے ان کے خلاف تحقیقات کا فیصلہ کیا۔پھر بھی وہ اگلے سات ماہ اپنے عہدے پر برقرار رہے۔حتی کہ اس سال جنوری میں ڈاکٹر محمد اجمل نے ان کی نشست سنبھالی )۔
اگرچہ بے نظیر بھٹو چیئر کا تنازعہ سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔تاہم جس نام کے ساتھ یہ چیئر جڑی ہوئی ہے اس کے احترام کا تقاضا ہے کہ حکومتِ سندھ بھی اپنے طور پر ایک غیر جانبدار کمیٹی قائم کرے اور یہ کمیٹی سابق و موجودہ وائس چانسلر ، ڈائریکٹر فنانس ، ڈائریکٹر ڈویلپمنٹ ، بے نظیر بھٹو چیئر ایڈوائزری کمیٹی کے ارکان ، سابق اور موجودہ چیئر ڈائریکٹرز اور آڈیٹرز کو طلب کر کے ان کے بیانات اور متعلقہ دستاویزات و حقائق کی روشنی میں کسی ایسے نتیجے پر پہنچے جس سے قصور واروں کی نشاندھی بھی ہو اور یہ چیئر جس مقصد کے لیے قائم ہوئی ہے وہ بھی حاصل ہو سکے۔ بصورت دیگر جو اسٹیبلشمنٹ نے بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا۔وہی یونیورسٹی اور صوبے کی اسٹیبلشمنٹ بے نظیر بھٹو چیئر کے ساتھ بھی کرتی رہے گی۔اگر پیپلز پارٹی کی قیادت اور حکومت کو یہی منظور ہے تو پھر ہم کون ہوتے ہیں انگلی اٹھانے والے۔