اگر دنیا کے کسی دورافتادہ گوشے میں کسی غیر مسلم کی نکسیر بھی پھوٹ جاتی ہے تو انسانی حقوق کے تحفظ کی ٹھیکیدار اورعلمبردار نام نہاد تنظیمیں آسمان سر پر اٹھالیتی ہیں لیکن جب مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں تو ان تنظیموں کو گویا سانپ سونگھ جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا پرچم بلند کرنے والے نہتے مسلمانوں کو مظلومیت پر بھی یہی بے حسی دیکھنے میں آئی ہے اور اب میانمار (سابق برما) کے روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کی جانب بھی اسی رویے کا مظاہرہ کیا جارہاہے۔
یہ مظلوم انسان میانمار کے صوبہ راکھین کے پرانے باسی ہیں جو بنگلہ دیش کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔ ناف نامی دریا اس صوبے کو بنگلہ دیش سے جدا کرتا ہے۔ راکھین اس صوبے کا نیا نام ہے جیسے برما کا نیا نام اب میانمار ہے۔ اس کا پرانا نام ارکان تھا جسے اراکان بھی کہا جاتا تھا۔ یہ نام اسے یہاں کے مسلمانوں نے اسلام کی نسبت سے دیا تھا۔
ان مسلمانوں کی آبادی دس پندرہ لاکھ کے لگ بھگ ہے اور یہ محض عقیدے کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ عمل کے اعتبار سے بھی پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ بس یہی ان بے چاروں کا سب سے بڑا جرم ہے جس کی پاداش میں ان پر عرصۂ حیات تنگ کردیاگیا ہے۔دین اسلام سے بے تحاشا سچی محبت وعقیدت روہنگیا مسلمانوں کے خون میں رچی بسی ہوئی ہے۔ یہ پکے نمازی ہیں اور اسلامی شعائر انھیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔ یہ اپنے بچوں کو اورکچھ بھی پڑھائیں یا نہ پڑھائیں لیکن قرآن مجید ضرور پڑھاتے ہیں اور اپنے تمام ممکنہ وسائل خانۂ خدا یعنی مسجد کی تعمیر پر خرچ کردیتے ہیں۔
روہنگیا مسلمان دنیا کے مظلوم ترین انسان ہیں جن کی زندگی حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔ یہ بے بس اور لاچار لوگ جنگی علاقے میں گھاس پھونس کی جھونپڑیوں میں زندگی گزارتے ہیں اور لکڑیاں جوڑ جوڑ کر مچھلیاں پکڑنے کے لیے کشتیاں بناتے ہیں۔ بیماری کی حالت میں انھیں دوا بھی میسر نہیں، بس اﷲ کا نام لے کر جڑی بوٹیوں سے ہی اپنا اور اپنے بال بچوں کا علاج کرتے ہیں۔
تن ڈھانپنے کے لیے انھیں کپڑے تک میسر نہیں۔ ان حالات میں ان کو جو بھی کپڑے نصیب ہوجاتے ہیں وہ گلنے سڑنے کے بعد ہی ان کے جسم سے اترتے ہیں اور پیروں میں جوتے تو انھیں شاذونادر ہی میسر آتے ہیں یہ دنیا کی وہ بد نصیب آبادی ہے جس کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے یہ اگر بنگلہ دیش کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کے حکمران انھیں گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں اوراگر یہ تھائی لینڈ چلے جائیں تو بے رحم انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر جانوروں کی طرح فروخت کردیے جاتے ہیں۔
میانمارکی فوج کے چند سپاہی قتل کردیے گئے تو روہنگیا مسلمانوں پر قیامت صغریٰ ٹوٹ پڑی اور ’’برق گرتی ہے تو بے چارے مسلمانوں پر‘‘ کے مصداق سارا الزام ان بے چاروں ہی کے سر پر منڈھ دیا گیا، بس پھر کیا تھا میانمار کی فوج اپنے ہوائی جہازوں، ہیلی کاپٹروں اورجنگی گاڑیوں سمیت عذاب بن کر بری طرح ٹوٹ پڑی، روہنگیا مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والے بدھ مت کے پیروکار ہیں جن کے مذہب کے بارے میں یہ پرچارکیا جاتا ہے کہ یہ امن وعدم تشدد اور صلح وآشتی کا مذہب ہے۔ میانمار کے بے رحم اور سنگ دل فوجیوں نے ہیلی کاپٹروں سے گن پاؤڈر برسرکار ہر طرف آگ ہی آگ بھڑکادی اور آنِ واحد میں سیکڑوں جیتے جاگتے انسانوں کو زندہ جلاکر راکھ کردیا۔
یہ بڑا ہی دل خراش منظر تھا آگ اورگولیوں کی بوچھاڑ سے جان بچنے کے لیے ہزاروں بے بس اور لاچار انسان ادھر سے ادھر بھاگ رہے تھے جنھیں کہیں بھی پناہ میسر نہیں تھی۔ دوسری جانب ظلم وجابر برمی فوجی اور بدھ مت سے تعلق رکھنے والے بدمعاش و بد قماش بندوقوں اور تلواروں سے لیس بچ نکلنے والوں کے انتظار میں گھات لگائے ہوئے کھڑے تھے۔ بچوں کے سامنے ان کے ماں باپ اور ماں باپ کے سامنے ان کے جگر گوشوں کو انتہائی سفاکی اور بے دردی کے ساتھ ذبح کیا جارہاتھا اور وہ ظلم ڈھایا جارہا تھا جو چنگیز خان اور ہلاکو خان نے بھی شاید نہ ڈھایا ہو۔ ستم بالائے ستم یہ کہ دنیا کے کسی میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ گویا:
نہ تڑپنے کی اجازت ہے نہ فریاد کی ہے
گھٹ کے مرجاؤں یہ مرضی مرے صیاد کی ہے
میانمار کی ظالم حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر کسی بھی مسلمان کا وجود باقی نہیں رہنے دے گی اور ہر کلمہ گو کا نام و نشان ہی اپنی سرزمین سے مٹاکر دم لے گی، آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اس مسلم کش ملک پر عائد پابندیاں اس وقت اٹھالی تھیں جب حالات اس سے بھی زیادہ خراب تھے ۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ امریکا مسلمانوں کی نسل کشی کا خود پس پردہ حامی ہے اسی لیے وہ ہندوستان کے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے وزیراعظم نریندر مودی کی کھلا کھلا حمایت اور چشم پوشی اور پہلوتہی کر رہا ہے۔
اس وقت دنیا کے سب سے زیادہ مظلوم روہنگیا مسلمان در درکی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور انھیں کہیں بھی پناہ اور امان نہیں مل رہی۔ کچھ عرصہ قبل جب ان میں سے چند سو افراد کسی طرح بچ بچاکر بھارت پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تو انھیں جموں کے نروال نامی علاقے میں دھکیل دیا گیا جہاں انھوں نے گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بناکر زندگی کی سزا کاٹنے کی آخری کوشش شروع کردی لیکن 25 نومبر 2016 کی سرد رات میں انھیں یک بہ یک بھڑکتی ہوئی آگ کے خوفناک شعلوں نے سوتے ہوئے گھیر لیا۔ بے چارے ہڑبڑاکر بیدار ہوئے اور جان بچانے کی خاطر بھاگ کھڑے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے ڈیڑھ سو جھونپڑیاں خاک کا ڈھیر ہوگئیں اور ایک بھرا پورا خاندان نذرِ آتش ہوکر خاکستر ہوگیا۔
اس سانحے کے نتیجے میں 400 مظلوم مسلمان عارضی پناہ گاہ سے بھی محروم ہوگئے لیکن ان مظلوموں کو سب سے زیادہ صدمہ اس بات سے پہنچا کہ اس جھونپڑ بستی میں قائم مسجد و مدرسہ میں رکھے ہوئے سیکڑوں قرآنی نسخے بھی آگ کی نذر ہوگئے۔ بتانے کی ضرورت نہیں کہ بستی کو آگ لگانے والے شیاطین کو اچھی طرح سے مسجد و مدرسہ اور اس میں رکھے ہوئے قرآنی نسخوں کا بخوبی علم ہوگا۔
راکھین میں مسلم کش کارروائیوں کا مذموم سلسلہ 2012 سے جاری ہے۔ اراکاین میں روہنگیا مسلمان 16 ویں صدی سے آباد ہیں۔ تب سے آج تک ان کی کئی نسلیں یہیں پیدا ہوکر جوان ہوئی ہیں لیکن اس کے باوجود انھیں یہاں کی شہریت سے مسلسل محروم رکھا گیا ہے جو کھلی زیادتی اور سراسر نا انصافی ہے۔ عالمی اداروں نے اگرچہ اس بات کا اعتراف تو کرلیا ہے کہ میانمار میں مسلمانوں کو چن چن کر ختم کا سلسلہ بلا روک ٹوک مسلسل جاری ہے نسل کشی کے اس بد ترین سلسلے کو رکوانے کے لیے کوئی فوری قدم اٹھائے۔
اسلامی اخوت کے جذبے سے سرشار ارکان کے مسلم رہنماؤں نے 1946 میں بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح سے تاریخی ملاقات کرکے انھیں اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ ان کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک علیحدہ ریاست تشکیل دی جائے لیکن بد قسمتی یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی ۔کیوںکہ وہاں کے حکمرانوں نے روہنگیا مسلمانوں کے اس مطالبے کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے رد عمل کے طور پر روہنگیا مسلمانوں نے ان حکمرانوں کے خلاف تحریک کا آغاز کردیا۔ اس کے جواب میں میانمار (برما) کی مختلف حکومتوں نے روہنگیا مسلمانوں کی آواز کو جبر و تشدد کے ذریعے دبانے کا سلسلہ شروع کردیا جو آج بھی اپنی بد ترین موجودہ شکل میں جاری ہے۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ عالمی برادری کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی، سب سے زیادہ دکھ اور شرم کی بات یہ ہے کہ اسلامی ممالک کو مظلوم روہنگیا مسلمان بھائیوں کی فلک شگاف چیخیں سنائی نہیں دے رہیں اور مسلمان حکمران اپنے اقتدار کے نشے میں دھت ہیں۔اس معاملے میں میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی کا کردار بھی کچھ کم قابل مذمت نہیں جو خود کو انسانی حقوق کی چیمپئن کہلواتی ہیں اور اس بنیاد پر نوبیل انعام بھی حاصل کرچکی ہے۔ جب وہ بذات خود قید و بند کی سختیاں جھیل رہی تھی تو وہ اپنے ہر خطاب اور انٹرویو میں انسانی حقوق کی پاس داری کی لمبی چوڑی باتیں کیا کرتی تھی لیکن اب جو روہنگیا مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم ڈھائے جارہے ہیں تو ان پر اس نے کیوں چپ سادھی ہوئی ہے؟اس کی انسان دوستی اب کہاں چلی گئی ؟