تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
فی الوقت دو خبریں قابل توجہ ہیں۔ایک کا تعلق دلت نوجوان اروندن سے ہے تو دوسری مشہور سماجی خدمتگار اور مصنف ڈاکٹر بھارت پٹناکر سے متعلق ہے۔ریاست تمل ناڈو کے علاقہ کرشہ نگر میں کچھ دبنگ لوگوں نے مبینہ طور پر ایک دلت نوجوان کے منہ میں پیشاب کر دیا۔شرمسار کر دینے والا یہ واقعہ ٢ مارچ کو کرشنا نگر ضلع کے کروونور گائوں میں مندر مہوتسو کے دوران پیش آیا ہے۔
متاثر نوجوان بیس سالہ ایم اروندن، بنگلور میں ایک کمپنی میں ویلڈر کے طور پر کام کرتا ہے۔مندر میلے میں حصہ لینے کے لیے وہ ٢مارچ کو اپنے گائوں میں آیا تھا۔اروندن کے مطابق، میں اپنے ایک دوست آردنیش(٢٠) کے ساتھ مندر گیا تھا۔وہاں کچھ لوگوں نے ہمیں دیکھا تو ہمیں گالیاں دینے لگے۔جب دونوں نے اس کی مخالفت کی تو دبنگ لوگوں نے ان پر حملہ کر دیا۔مارتے پیٹتے ایک قریبی ٹوائلٹ میں لے گئے۔جہاں وہ زخمی ہوکر زمین پر گر گیا۔بدحواس حالت میں اروندن نے پانی مانگا تودبنگ لوگوں نے اس کے منہ میں پیشاب کر دیا۔اس درمیان دنیش بچ کر بھاگ گیا اور اروندن کے اہل خانہ کو واقعہ کی اطلا ع دی۔وہیں دوسری جانب ریاست مہاراشٹر میں دانشوروں کے لیے بُرادور تھمتا نظر نہیں آرہا ہے۔توہم پرستی کے خلاف لڑنے والے نریندر دابھولکر اور کمیونسٹ رہنما گووند پنسارے کے قتل کے بعد اب مشہور سماجی خدمتگار اور مصنف ڈاکٹر بھارت پٹناکر کوخبر کے مطابق قتل کی دھمکی ملی ہے۔ڈاکٹر پٹنا کر نے میڈیا کوبتایا کہ انہیں کئی لوگ دھمکی آمیز خطوط بھیجتے ہیں۔اتنا ہی نہیں، انہیں جان سے مارنے کی دھمکی بھی دیتے ہیں۔ان خطوط میں الزام لگایا گیا ہے کہ ڈاکٹر پٹنا کر مسلمانوں کے تئیں نرم رخ اپنا رہے ہیں۔نیز پھٹکارتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہوں نے ودروہی سمّیلن کی قیادت قبول کرکے غلط کیاہے۔ودروہی سمّیلن ریاست کی طرف سے چلائے جا رہے ادبی کانفرنس کا ایک متبادل پلیٹ فارم ہے۔
موجودہ قت میں ڈاکٹر پٹنا کر مزدور مکتی دل کے صدر ہیں۔یہ ادارہ مزدوروں کے لیے کام کرتا ہے۔ڈاکٹر پٹنا کر کو گزشتہ دنوں ایک خط موصول ہوا۔جو کولہاپور سے بھیجا گیا تھا۔خط کے ساتھ جارح،راشٹر وادی میگزین سناتن پربھات کی کاپی بھی بھیجی گئی تھی۔ڈاکٹر پٹنا کر نے بتایا کہ مجھے پہلے دھمکی ملی تھی۔خطوط میں کہا گیا تھا کہ میں دامودر اور پانسارے کے راستے پر نہ جائوں۔اگر میں ایسا کرتا ہوں ،قتل کا اگلا نمبر میرا ہوگا۔ان دو واقعات کے علاوہ آج کل ملک عزیز ہند میںبے شمار دیگر واقعات بھی خبروں میں چھائے ہوئے ہیں،جو نہ صرف سماج کے امن عامہ کو متاثر کررہیہیںبلکہ مخصوص افراد و گروہ کو خوف میں مبتلا کرنے کے لیے بھی انجام دیے جا رہے ہیں۔
ہندوستان کے آئین نے ملک کے شہریوں کوچند ایسے حقوق دیے ہیں جنہیں ہم بنیادی حقوق(Fundamental Rights)کے نام سے جانتے ہیں۔بنیادی حقوق کے ذیل میںہر شہری خواہ وہ ہندو ہو یا مسلمان، سکھ ہو یا عیسائی قانون کی نگاہ میں برابر ہیں۔ مذہب ، ذات پات، جنس، رنگ یا جائے پیدائش کی بنا پر کسی کے خلاف کسی قسم کا امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شہری کو آزادیٔ خیال اور آزادیٔ مذہب حاصل ہے۔ ساتھی ہی ہر شہری کو سرکاری ملازمتیں نیز بڑے سے بڑا عہدہ بلا امتیاز وتفریق حاصل کرنے کا حق ہے۔ دوسری طرف دستور نے صدیوں سے چلے آرہے چھوت چھات کے رواج کوجرم قرار دیا ہے۔ نیزاقلیتوں کو مذہبی وتمدنی آزادی دی ہے۔ انہیں اس بات کا حق دیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ اسکول اور تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب یا تمدن ،زبان اور رسم الخط(script) کو قائم وبرقرار رکھیں اورترقی دیں۔ ساتھ ہی مخصوص مذہب کی تبلیغ اور مذہبی مراسم اداکرسکیں۔دستور کی دفعہ:٢٥کے تحت(١) تمام اشخاص کو آزادی ضمیر اور آزادی سے مذہب قبول کرنے، اس کی پیروی اور اس کی تبلیغ کرنے کا مساوی حق ہے بشرطیکہ امن عامہ ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات متاثر نہ ہوں۔(٢) اس دفعہ کا کوئی امر کسی ایسے موجودہ قانون کے نفاذ کو متاثر نہ کرے گا اور نہ وہ ایسے قانون کے بنانے میں مملکت کا مانع ہوگا جو:(الف) کسی معاشی۔مالیاتی۔سیاسی یا دیگر غیر مذہبی سرگرمی کو جس کا تعلق مذہبی عمل سے ہوسکتا ہو منضبط کرے یا اس پر پابندی لگائے۔(ب) سماجی بہبود اور سدھار کے لیے ہندووں کے عوامی نوعیت کے مذہبی اداروں کو ہندووں کے تمام طبقوں اور فرقوں کے لیے کھول دینے کے بارے میں توضیع کرے۔
تشریح:a) کرپان باندھنا اور اس کو ساتھ رکھنا سکھ مذہب کے عقیدہ میں شامل ہونا متصور ہوگا۔تشریح:b) فقرہ (٢) کے ذیلی فقرہ (ب) میں ہندووں کے حوالہ کی یہ تعبیر کی جائے گی کہ اس میں سکھ، جین یا بدھ مذہب کے پیرئوں کا حوالہ شامل ہے اور ہندو مذہبی اداروں کے حوالے کی حسبہ تعبیر کی جائے گی۔وہیں دوسری جانب دستور نے مذہبی امور کے انتظام کی آزادی بھی دی ہے۔دفعہ:٢٦اس شرط کے ساتھ کہ امن عامہ، اخلاق عامہ اور صحت عامہ متاثر نہ ہوں ہر ایک مذہبی فرقے یا اس کے کسی طبقے کو حق ہوگا:(الف) مذہبی اور فلاحی اغراض کے لیے ادارے قائم کرنے اور چلانے کا۔(ب) اپنے مذہبی امور کا انتظام خود کرنے کا۔(ج) منقولہ اور غیر منقولہ جائداد کے مالک ہونے اور اس کو حاصل کرنے کا ؛ اور(د) ایسی جائداد کا قانو ن کے بموجب انتظام کرنے کا۔واضح صراحت کے بعد غیر دستوری سرگرمیاں جرم کے زمرے میں داخل ہوں گی۔لہذا ہر وہ عمل جو نہ صرف دستور کی خلاف ورزی ثابت کر دے ،جرم ہے ۔بلکہ امن عامہ ، اخلاق عامہ، صحت عامہ اور اس حصہ کی دیگر توضیعات کا متاثر ہونا بھی قابل گرفت مانا جائے گا۔
متذکرہ واقعات ہوں یا ان جیسے دیگر معاملات ،کے پس منظر میں دستور ہند کی ضمانتیں بہت حد تک مثبت امیدیں وابستہ کراتی ہیں۔اس کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کی عدالتیں چھوٹے و بڑے معاملات کو بنٹانے کے لیے ناکافی ہیں۔پھر عدالتوں کا ناکافی ہونااور طویل مدتی کاررائیوں کی وجہ سے ملزمین کو کیفر کردار تک پہنچانے میں بے شمار دقتیں سامنے آتی ہیں۔ان دقتوں میں جہاں ایک طرف ثبوتوں کے اکھٹے کرنے کا دقت گزار مرحلہ ہے تو وہیں دوران مدت ثبوتوں کو مٹانے،گواہوں پر مختلف طریقوں سے ڈرانے دھکمانے کا غیر قانونی عمل بھی سامنے آتا ہے۔اس پیچیدہ صورتحال کے نتیجہ میںکئی مرتبہ ملزم باعزت بری ہوجاتاہے ۔اب اگر ملزم واقعی صرف ملزم ہے ،مجرم نہیں ،تو فیصلے کا خیر مقدم ہونا چاہیے ۔برخلاف اس کے ملزم کا طویل مدتی عدالتی کارروائیوں اور اس دوران غیر اخلاقی و غیر قانونی سعی و جہد کے نتیجہ میں باعزت بری ہونا،عدالتوں کے موجودہ نظام پر کئی طرح کے سوالات کھڑے کرتا ہے۔پھر اگر اس طرح کے ایک سے زائد معاملات سامنے آئیں تو یہ نہ صرف منفی نظیریں بن جاتی ہیںبلکہ جرم کے اضافہ اور ملزمین و مجرمین کو ان کے ظلم میں تقویت پہنچانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔دوسری طرف سماج میں روز بروز بڑھتے جرائم سے متاثرہ فرد و خاندان کی مدد نہ کرنا،آنکھوں دیکھے جرم پر خاموشی اختیار کرنا،اور کمزور و بے سہارا افراد و گروہ کو تعاون نہ دینا، جیسے مسائل میں بھی ہر دن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔اس کی ایک وجہ تو معاشرہ میں موجود افراد و خاندان کے درمیان غالباً ناواقفیت و لاتعلقی ہے۔ وہیں دوسری وجہ پولیس وعدالتی کارروائیوں میں ملوث ہونے سے بچنے کی فطری خواہش ۔ان دوحالات میںجہاں ایک طرف معاشرہ میں موجود افراد کو ایک دوسرے کے خوشی و غم میں شریک ہونے کی سخت ضرورت ہے وہیں عرصہ دراز سے پولیس و عدالتی نظام کو مزید بہترکرنے کی ضرورت بھی شدت سے محسوس کی جاتی رہی ہے ۔ایک ایسے نظام کی ضرورت جہاںجرم کے خلاف شہادت پیش کرنے والے گواہان کوہر طرح کے شر سے بچانے کے پختہ انتظامات ہوں۔ساتھ ہی عدالتوں میں موجود pending casesکو فاسٹ ٹریک عدالت کے ذریعہ حل کیا جائے۔ممکن ہے اس صورت میںنہ صرف ملک کے کمزور طبقات ذلت و رسوائی سے نجات پائیں گے بلکہ امن و امان کے قیام اور ظلم کے خاتمہ میں بھی بہت حد تک یہ کوششیں اثر انداز ہوں گی۔
تحریر: محمد آصف اقبال، نئی دہلی
maiqbaldelhi@gmail.com
maiqbaldelhi.blogspot.com