تحریر: مسز جمشید خاکوانی
آ ج ایک موقر جریدے میں چھپی عورتوں پر ظلم کی داستان پڑ ھ کر میں نے سوچا ذرا لو گوں کو سچ کا اصل چہر ہ بھی د کھا نا چا ہیئے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اپنے ہا تھو ں سے اپنا معاشرہ تبا کیا ہے ہر خطے کی آب و ہوا معاشرت اور طرز بود و با ش ا لگ ہو تے ہیںا س طر ح و ہا ں کے ر ہنے سہنے وا لے اپنے فائد ے یا نقصان کو مد نظر ر کھتے ہو ئے اپنے ا ہداف مقرر کرتے ہیں ۔ ہم نے میڈیا وار سے متا ثر ہو کر لو گو ں کی د یکھا دیکھی اور بیرونی امداد پر پلنے وا لی ،،این جی اوز،، کے د با ئو میں آ کر اپنا ٹر یک کیا بد لا کہ ہما رے معا شر ے کی جڑ یں ہل گئیں۔ میڈ یا تو اپنے فا ئدے کے لیئے ایسے ایشوز کو ہوا دیتا رہا جو اتنے حساس بھی نہ تھے جتنا ان کو بنا دیا گیا۔
ہما رے ذہنوں میں کچھ سوال ا ٹھتے ہیں چو نکہ ہمیں ا نکا جواب نہیں ملتا اس لیئے ا یک ایسی غیر یقینی اور ابہا می صورت حا ل پیدا ہو جا تی ہے جو کسی بھی معا شرے کے لیئے تباہ کن ثا بت ہو تی ہے حا لا نکہ پہلے یہی کا م خو شی سے کیئے جاتے تھے جو اب جبرو کراہ سے کیئے جا تے ہیں۔ڈش ، کیبل،مو بائل نے کم ستم نہیں ڈھا یا تھا کہ نا م نہاد،، این جی اوز،، نے پورے ملک میں غدر مچا دیا آ ج حال یہ ہے کہ طلاق کی شرح پچاس فیصد بڑ ھ گئی ہے چا ئلڈ لیبر کے نام پر با عزت روزگار سے بھی محرو م کیا جا رہاہے کس ملک نے یا این جی او نے اس مسلئے کا حل تو کبھی نہیں بتا یا کہ اگر کو ئی بچہ کام نہ کرے تو مجبو ری میں اپنا گزارا کیسے کرے۔
بھیک ما نگے،چو ری کرے کیا کرے جہاں پڑ ھے لکھے نوجوانو ں کو روزگار میسر نہیں۔سب سے پہلی با ت تو یہ ہے کہ جن کو پڑھنے کا شوق ہو تا ہے وہ ہر حا ل میں پڑ ھ لیتے ہیںلیکن جس کو نہیں پڑ ھنا وہ کو ئی کا م د ھندہ کر کے عزت سے چار پیسے کما لیا کرتے تھے ۔میڈیا کے خدائی فوجداروں نے زند گی کا یہ چلن بھی چھین لیا ہے،اس لئے اب آ پ کو بھیک ما نگتے بچے تو جگہ جگہ نظر آ ئیں گے کا م کرتے ہو ئے کم۔۔ھا لا نکہ مغر بی معا شر ے میں عورت اور مرد ملکر کما تے ہیں اور بچے بھی اٹھارہ سال کی عمر کے بعد اپنا بوجھ خود ا ٹھا تے ہیںچا ہے انہیں کیسا ہی کا م کر نا پڑ ے لیکن وہا ں ایسی با تو ں کو معیو ب نہیں سمجھا جا تا و ہی با تیں اگر ہما رے ہا ں ہو ں تو انھیں ،،ہواّ،، بنا کر پوری د نیا میں پا کستان کو بد نا م کیا جا تا ہے۔
اپنے ملک کی اس ذ لت نے مجھے اصل سچ کیا ہے لکھنے پر مجبو ر کر دیا افسوس ہم اپنے ہی ہا تھو ں اپنے معا شرتی نظام کو بے غیرتی اور تباہی کے گھاٹ ا تا ر چکے ہیں جہا ں کبھی چا ئلڈ لیبر کے نعرے لگتے کبھی عورتوں پر ظلم کی دا ستانیں مشہو ر ہو تی ہیں،جا گیر دارانہ نظا م کو پیٹنا بہت آ سا ن ہے ۔مگر کبھی کسی کو تو فیق نہیں ہو ئی کہ اس کی تشریح بھی کرے ۔ زمیںدار کو جاگیر دار کہہ کر اور بھی ظلم کیا گیا۔پہلے وہ صرف ز میںدار تھے اب وہ سیا ست میں پیسہ لگا کر مز ید ما ل بنا گئے ہیں اب ان کے پاس زمینیں بھی ہیں صنعتیں بھی اور حکو متی عہد ے بھی ۔وہ پورے فر عو ن بن چکے ہیں لیکن فر شتے کہلائے جا تے ہیں۔اخبا رو ں میں ان کا تعارف یو ں کرا یا جا تا ہے،شرافت کے علمبردار عوام کے سچے لیڈر جنہو ں نے اپنے علا قے کی تعمیر و تر قی کے لیئے کر وڑو ں خرچ کیئے اب ان سے کو ئی پو چھے کیا تم لو گو ں نے اپنی جیب سے خر چ کیا؟ سیا ست کے ذریعے اپنے گھر کو بھر لینا کیا سخا وت کہلا تا ہے ۔
ایک سڑ ک بنوا کر ووٹ پکے کرنا شرافت ہو تی ہے؟ آ ئیے آ ج ہم ان ا یشوز پر بات کرتے ہیںجن کو چھیڑ نا کو ئی گوارہ نہیں کرتا کہ اس کی جواب دہی مشکل ہو جا تی ہے ۔ سب سے پہلے ،، چا ئلڈ لیبر ،، پے با ت کرتے ہیںاس کی ایک مثا ل میں اپنے گھر سے دیتی ہو ں۔ میر ے ڈرئیور کا بیٹا ہر روز ا سکو ل سے بھا گ جا تا آ خر اس نے میرے حوالے کیا بی بی اس کو کسی طر ح پڑ ھا ئو ۔ میں اس کے لیئے کتا بیں کا پیا ں ر نگین پینسلیں ہر تر غیب دینے والی چیز یں لائی کسی طر ح یہ پڑ ھ لے ۔ لیکن سا را و قت اس کی نظر یں آ سمان پر اڑتی پتنگو ں کا طواف کرتی رہتیں یا جیب میں کنچے کھنکتے۔ میں نے اسے یہ تک کہا چلو ایک گھنٹہ کھیلا کر و ایک گھنٹہ پڑھ لیا کرو وہ کہتا بے شک کام کروا لو پڑھو ں گا نہیں آخر دو ہفتے بعد بھا گ گیا۔
اس کا باپ بڑی مشکل سے ڈ ھونڈ کر لا یا تو اس نے شرط ر کھی ورکشاپ پر کام دلا دو پڑ ھو ں گا نہیں یو ں وہ لڑ کا ور کشا پ پر ہی کھڑا اور آ ج اپنے پڑھے لکھے بھائیوں سے زیادہ کما رہا ہے ۔ایسی در جنو ن مثالیں میر ے سا منے ہیں کھیتوں کھلیانوں میں ہماری دیہاتی عورت جان تو ڑ کام کرتی ہے بلکہ مردوں سے بھی ز یادہ محنت کرتی ہے اس طر ح انکی ،،فز یکل ٹر یننگ،، ہوتی ہے دیہا ت کی عورت مضبو ط ہوتی ہے ہم شہری عورتوں کی طرح نا زک نہیں۔۔ اب ہوا یہ کہ ٹی وی پر،،پر چار،، ہونے لگا۔دیہاتی عورت پر ظلم ہو رہا ہے ،گائوں گائوں ،،شہری فیشن ایبل،،خواتین پھرنے لگیں جی ہم عورتوں کو مردوں کے ظلم سے آزادی دلوایئںگی وہ ان کو ا کسا تیں ان کا کوئی کام نہ کرو سامنے ڈٹ جائو۔اب کھتی باڑی کا کام ایسا ہو تا ہے جو اکیلا مرد کر ہی نہیں سکتا عورتو ں کو لا ز ماً انکی مدد کرنی پڑ تی ہے۔
فصلیں اگانے میں بہت سے کام ایسے ہوتے ہیں جو صرف عو رتیں ہی کر سکتی ہیںاس لیئے جو د یہا تی کنبہ میل جل کر کام کرتا ہے وہ جلدی خو شحا ل ہو جا تا ہے ۔کیو نکہ ز مین اللہ کی ہے جو اس پر محنت کرتا ہے پھل کھا تا ہے۔جب مغرب سے درآمدہ خدائی خدمت گاروں نے اس معا شرت کو بد نام کیا تو عو ر تیں اڑ گئیں۔ہمیں نہیں کرنا یہ کام کھیتی باڑی چھو ڑو کو ئی اور کام کر و۔مرد بھی آ خر کنبہ لاد کر نکل پڑے۔لیکن بغیر محنت کے روٹی کما نا بھی مشکل ہے،پہلے تو جمع پو نجی تمام ہو ئی پھر عزتو ں پر بن گئی یہ کام بھی ہو گیا تو مردوں کو چوری ڈ کیتی کی راہ اپنا نا پڑی،گھر میںروٹی پکے نہ پکے مو با ئل میں بیلنس اور کیبل کا بل تو لا زمی د ینا پڑ تا ہے سو حرام کی کما ئیا ں حرام پر ہی ختم ہو ئیں۔
ساگ روٹی ،دودھ مکھن، لسی چا ٹی خواب ہو ئے،چا ئے پا پے دیہا تی لو گو ں کی زند گیو ں کو گھن کی طر ح چا ٹ گئے۔پو لیس کے لتر کھا نے کے بعد آ خر ا نھیں ہو ش آ یا کہ و ہی پہلی زند گی ہی بہتر تھی تب انہو ں نے دو بارہ زمیںداروں کا ر خ کیا ۔۔ ز میںدار بھی مزارعوں کے بغیر ا دھورا ہو تا ہے۔سو دو بارہ با ہمی تعا ون سے فصلیں لہلہا نے لگیں لیکن عورتو ں کو جو چا ٹ اب لگ چکی ہے وہ کہا ں جا ئے
دنیا میں سبھی طر ح کے لو گ ہو تے ہیں جس طرح انسان اپنے بچو ں کی تر بیت کر تا ہے اسی طرح ذرائع ابلاغ سے معا شرے اور قوم کی تر بیت ہو تی ہے ،ہما رے ہا ں میڈ یا نے ہمیشہ منفی پہلو کو اجا گر کیا ہے جس کی و جہ سے انا ر کی پھیلی اب پوری د نیا میں ہم مذاق بن کے رہ گئے ہیں۔
مختاراں مائی سے لیکر ملا لہ تک کہیں میڈ یا نے مثبت رو ل ادا نہیں کیا دشمنوں کے ہا تھوں ا ستعمال ہو نے وا لے میڈیا سے اور تو قع بھی کیا رکھی جا سکتی ہے ۔ممبئی حملو ں میں جس طرح پا کستانی میڈ یا نے اپنے ہی ملک کے خلاف مہم چلا ئی اس کا اندازہ بھارتی افسر کے بیا ن سے ہو جا نا چا ہیئے۔ سچ کے سا منے آ تے آتے جھو ٹا پرا پیگنڈا اپنا کا م د کھا چکا ہو تا ہے ۔پہلے ان چیز و ں کو خفیہ ایجنسیاں کنٹرو ل کیا کرتی تھیں۔یہ جو ہم سنتے ہیں کہ پا کستا ن نظر یا تی سر حد و ں پر قا ئم ہے تو دشمن کے ارادوں کو سمجھنا اور بر و قت نا کا م بنا نا آئی ایس آئی جیسے اداروں کا کام تھا۔
جن کو فیل کر نے کے لیئے ہم پر بد د یا نت حکمران اور عد لیہ مسلط کی گئی ۔پھر انکی فنڈنگ کر کے اس ملک کی بنیا دی اسا س کو تبا ہ کر نے کی کو شش کی گئی ۔ہماری اساس ہمارا اسلا می معا شرہ تھا ۔شر م و حیا تھی ،ایمانداری قنا عت کی ز ند گی تھی ہم سب جا نتے ہیں کہ اسلام میں سب کا کردار متعین ہے ۔مرد کا ،عورت کا ،امیر کا غر یب کا، عالم کا جا ہل کا ہمیں تو کسی سے ڈ کٹیشن لینے کی ضر ورت تھی نہیں ۔لیکن میڈ یا اور عد لیہ کے تھر و ہ ہم پر بھر پو ر وار کیا گیا جب بھاری پتھر اپنی جگہ سے کھسک جا تا ہے تو پھر اس کی منز ل پستی کے سوا کچھ نہیں ہو تی۔ہم بھی اپنی جگہ سے کھسک چکے ہیں ۔ عورت پہ ظلم کا پر چار بھی اسی سلسلے کی ایک کڑ ی ہے ۔اور ایک بات میں آپکو بتائو ں ان عورتو ں کو رو تی کپڑا ہر آ سا ئش دے کر گھروں میں بٹھا دو یہ تب بھی را ضی نہیں ہو تیں۔میں ایک عو رت کو تر س کھا کے اپنے گھر لائی۔
اس کا شیر خوار بچہ تھا تین اور چھو ٹے بچے تھے ،شو ہر مر چکا تھا کھیت کنا رے بچے کو لٹا کر کا م کرتی تھی حتیٰ کہ بچے کو چیو نٹیا ں پڑ ی ہو تیں میں نے د یکھا تو گھر لا ئی اور گھر کا کام سو نپ دیا ۔چند دن بعد وہ ا کتا گئی ۔جا کر گیٹ کے با ہر کھڑ ی ہو جا تی آتے جاتے راہگیرو ں کو تکتی ، ٹھنڈی آہیں بھر تی ،وجہ پو چھی تو کہنے لگی بی بی ہم آزاد فضا ئو ں کی عا دی ہو تی ہیںمردوں سے عورتوں سے با تیں کر تے چہلیں کرتے وقت گذرنے کا پتہ ہی نہیں چلتا آ پکے گھر تو کو ئی با ہر ہی نہیں نکلتا۔
میں نے کہا یہ شہر ہے یہا ں تمہیں کہا ں سے آزاد فضا اور مردوں عورتوں کی قطا ریں مہ یا کروں آ رام سے ہو بچے صاف ستھرے تھو ڑے سے کام کے بعد خود بھی صاف ستھری ہو کے چا ر پائی پہ چڑھ بیٹھتی ہو ٹی وی د یکھتی ہو اور کیا چا ہیئے قصہ مختصر ایک دن ہم باہر سے آ ئے تو ڈرئیور کے سا تھ ۔۔۔۔۔۔ ہم ایسے سین دیکھنے کے عا دی نہ تھے سو اس ہر نی کو آزاد فضا ئو ں میں وا پس چھو ڑ آ ئے اگر سچ پھر و لنے نکلو تو ان مظلو مو ں کا اصل چہر ہ سا منے آ جا تا ہے لیکن بات پھر و ہی ہے کہ سچ بو لتے ہر کوئی ڈر تا ہے ،میں یہ نہیں کہتی ظلم نہیں ہو ر ہا ظلم ہو ر ہا ہے عورت پر نہیں بلکہ اسلامی معا شرے کو تبا ہ کر نے کا ظلم ہو ر ہا ہے۔
ا سلام کی اتنی بھیا نک شکل بنا دی گئی ہے کہ بندہ سو چتا ہے کیا اللہ رسول کے بنا ئے قا نو ن غلط تھے ؟ کیا قرا ن و حد یث میں بتلا ئے گئے سبق بھلا کر اب ہم مغر بی ا صولو ں پر اپنا معا شرتی نظا م چلا ئیں گے یہی ہما ری اوقا ت ہے کہ کوا چلا ہنس کی چا ل ا پنی بھی بھو ل گیا ہمیں عو رتو ں کے حقوق کی با ت ضر ور کر نی چا ہیئے مگر مردو ں کے حقو ق پر بھی د ھیا ن د ینا چا ہیئے۔ بچو ں کی تعلیم ضرور سو چنی چا ہیئے لیکن یہ بھی د یکھنا چا ہیئے حکو متو ں نے تعلیم اتنی مہنگی اور غر یب کی ا سطاعت سے با ہر کر دی ہے کہ غر یب بے چا رے کیا کر یں یا تو حکو مت کماز کم میٹر ک تک تعلیم مفت اور لا زمی قرار دے یہ کیا طلم ہے کہ تعلیم کے دروازے بھی بند کر دو اور چا ئلڈ لیبر کے نام پر روزی کما نا بھی جر م قرار دے دو ۔اس طرح تو پھر بھکاری ،چور ،ڈا کو اور خود کش بمبا ر ہی بنیں گے ۔اب رہی عورت وہ اگر گھر کا کام نہ کرے بچو ں کی تربیت نہ کرے شو ہر کو سکھ نہ دے تو پھر کیا کرے؟سج بن کے بیٹھی رہے پھر دیکھنے والا بھی چا ہیئے۔
اسی لیئے معا شرے میں بے راہ روی جنم لیتی ہے ،مغرب کی عورت دوہرے عذاب میں گر فتار ہے وہ گھر کا کا م بھی کرتی ہے جاب بھی کرتی ہے بلکہ کئی کئی شو ہر وں کے بچے بھی پا لتی ہے ۔جس کو یہ لوگ آزادی کا نام دیتے ہیں۔۔۔وہ لو گ اپنی معا شرت اور اپنا خاندانی نظا م تو گنوا چکے اب وہ ہمیں در یا فت کر نے اور تباہ کر نے نکل پڑ ے ہیں اس سے زیا دہ ،، خا م ما ل،، ا نھیں اور کہا ں ملے گا۔اوپر سے طا لبا ن کے نا م پر ا نھیں ،،ا یجنٹ،، مہیا ہو گئے ہیں جو اسلا م کو بد نا م کر رہے ہیں اور ا للہ کے عذاب کے مستحق ٹھیر رہے ہیں۔
تحریر: مسز جمشید خاکوانی