تحریر: مسز جمشید خاکوانی
ایک معروف میگزین میں جہیز سے متعلق مضمون چھپا ہوا تھا جس میں تجاویز دی گئی تھیں کہ ہر شہر ہر قصبے ہر محلے میں ایسی تحقیقاتی کمیٹیاں بنائی جائیں جس کے سربراہ دیانت دار اور با اعتماد سرکاری افسر ہوں (اس سے بڑا لطیفہ کوئی نہیں) یہ کمیٹیاں محلے شہروں اور قصبوں میں ہونے والی شادیوں کے اخراجات سے باخبر ہوں اور حکومت کو مطلع کریں ان کمیٹیوں کی مشینری لازماً ایماندار ہونی چاہیے دوئم یہ کہ جہیز کے نقائص اور اس کے خراب سماجی ،اقتصادی نتائج کے بارے میں دستاویزی فلمیں تیار کی جائیں حکومت ان کو عوام تک پہنچائے (وہ اپنے کارنامے کیوں نہ پہنچائے) اور اخبارات میں اس بارے میں اشتہارات دیکر عوام میں یہ احساس پیدا کیا جائے کہ واقعی کوئی پابندی لگائی گئی ہے۔
(جس طرح سائبر کرائم بل میں زبان بندی کی گئی ہے)حقیقت میں اس کے کیا فوائد ہیں اس کے علاوہ اس بات پر بھی زور دینا چاہیے کہ دوسری سماجی برائیوں ،غیر ضروری رسم و رواج بیاہ شادیوں پر روشنیوں کا استعمال ،آتش بازی ،نمود و نمائش اور اس طرح کی دوسری رسومات پر پابندی لگانا چاہیے تاکہ نچلے طبقے کے لوگ دیکھا دیکھی میں ایسے کام نہ کریں مجھے یہ مضمون پڑھ کر چند دن پہلے کا ایک واقعہ یاد آ گیا ملتان کے ایک جیولر کے پاس ہم جیولری دیکھ رہے تھے سیل مین نے کہا جی میں آپکو مہرالنساء سیٹ دکھاتا ہوں مہرالنسائ؟ ہم نے حیرت سے پوچھا جی ہاں وہ سینہ چوڑا کر کے بولاوزیر اعظم نواز شریف نے اپنی نواسی کو جو سات کروڑ کا سیٹ دیا تھا وہ ہم نے صرف سات لاکھ میں تیار کر لیا ہے یہ دیکھیں یہ کہہ کر اس نے وہ سیٹ نکالا جو واقعی نواز شریف کی نواسی کے سیٹ کی نقل تھی کہنے لگا وہ تو جی خزانے پہ بیٹھے ہیں سات کروڑ کا سیٹ دے سکتے ہیں۔
لیکن ہم نے بھی غریب عوام کے لیے سات لاکھ میں ویسا سیٹ بنا لیا ہے غریب عوام؟ایک بار پھر ہمارے منہ سے نکلا جی ھاں جی یہ ایک پولیس افسر نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے بنوایا ہے پولیس افسر کی تنخواہ میں سات لاکھ کا ایک سیٹ؟ہم نے غریب شہریوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنا مناسب نہ سمجھا اور سیٹ واپس رکھوا دیا ۔یہ ہوتی ہے دیکھا دیکھی جب حکمران اپنے مال کی جو انہوں نے عوام کو ہی لوٹ کر بنایا ہے اس طرح اندھا دھند نمائش کریں گے تو عوام کو وہ کس طرح حکماً ایسے کاموں سے روک سکتے ہیں وزیر اعظم کی نواسی تو سینتیس ارب کا ٹھیکہ بھی جہیز میں لے گئی تھی جو اس غریب قوم کے ٹیکسوں کے پیسے تھے بحرحال ہم تو کچھ نہیں کہہ سکتے مال مفت ہو تو جتنا مرضی خرچ کرو ۔ایک مزے کی بات اور تھی جس میگزین میں یہ مضمون چھپا تھا اس کے اگلے ہی صحفے پر ” نیل آرٹ ” سے متعلق جان کاری دی گئی کہ آجکل یہ آرٹ کس قدر مقبول ہو رہا ہے نیلز یعنی ناخونوں پر طرح طرح کے آرٹ کے نمونے بنائے گئے تھے اور لڑکیاں اس طرح کی چیزیں دیکھکر بہت متاثر ہوتی ہیں۔
ایک دلہن تیار ہونے میں کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں یہ وہی جانتے ہیں جن کے گھر بیٹیاں ہیں کیونکہ ترغیبات کا عفریت ہر جانب منہ کھولے کھڑا ہے اور انسان اندھا دھند اسی طرف بھاگ رہا ہیترغیبات کا سب سے بڑا ذریعہ میڈیا ہے چاہے وہ الیکٹرانک میڈیا ہو چاہے پرنٹ میڈیا نت نئی ترغیبات اسی ذریعے سے پھیلتی ہیں جب اس طرح کی چیزیں انسانی نگاہوں سے گذرتی ہیں تو ان کی خواہشیں بے لگام ہو جاتی ہیں ریت رواج اس قدر بڑھا دیے گئے ہیں کہ والدین بیٹی کو دلہن بنانے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں اپنا گھر بیچ دیں یا خود کو بیچ دیں اگر کوئی اس ریت رواج سے روگردانی کرتا ہے تو بیٹی گھر بٹھائے ۔امروں کی دیکھا دیکھی غریب بھی پیچھے نہیں رہتے وہ بھی لڑکی والوں سے گاڑی نہیں تو سکوٹر کا مطالبہ کر دیتے ہیں ارے بہن شکر کریں ہم نے گاڑی نہیں مانگی آپ سستے میں چھوٹ رہی ہیں ورنہ آجکل تو گاڑی کا زمانہ ہے آپ لاکھ کہو ہم نے بیٹی کو اچھی تعلیم و تربیت دی ہے وہ گئی کھوہ کھاتے میں اس کا کوئی مول نہیں مول ہے جہیز کا۔
ملبوسات اب ہزاروں سے لاکھوں میں پہنچ گئے ہیں عروسی جوڑا جو صرف ایک رات پہنا جاتا ہے لاکھوں میں بنتا ہے میک اپ کے اخراجات، فیشل، مہندی اور نیل آرٹ ان سب پر لاکھوں اٹھ جاتے ہیں حالانکہ شادیاں اس وقت بھی ہوتی تھیں جب بہنیں ،کزنیں مل کر دلہن کو مہندی لگا دیتی تھیں ساتھ ساتھ ہنسی مذاق اور خوش گپیاں جاری رہتیں لیکن اب مہندی بھی آرٹ بن گیا ہے اب ”پورٹریٹ ”مہندی کا رواج نکل رہا ہے دلہن کے ہاتھوں پر دولہے کی تصویر بنائی جائے گی بھلے اس دولہے کی ٹکے کی عزت نہ ہو وہ دلہن کے ہاتھوں پر ضرور چھپے گا اور پھر دھو دھو کے مٹے گا عجب تماشہ ہے اور شرم ان کو نہیں آتی جو آرٹ کے نام پر ان بدعتوں کو پھیلاتے ہیں۔
اصلاح تو تب ہو گی جب حکومت ایسی چیزوں کا نوٹس لے گی ان کے خلاف قانون پاس کرے گی جب حکومتی لوگ ستر قسم کے کھانے کھائیں گے تو عوام کو کیسے جبراً منع کر سکتی ہے ون ڈش کی پابندی کریں سادگی اپنائیں یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں ہر قسم کا قانون مذاق بن جاتا ہے ابھی کل پرسوں کی بات ہے ایفیڈرین فیم حنیف عباسی نے تھانے پر حملہ کر کے ون ویلنگ کرنے والے لڑکوں کو چھڑا لیا نہ صرف اہلکاروں پر تشدد کیا بلکہ ایس ایچ او کو بھی معطل کروا دیا کیا اس طرح اصلاح احوال ہو سکتی ہے؟
تحریر: مسز جمشید خاکوانی