تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال
دنیائے سیاست میں حضرت عمر فاروق سے بڑا سیاستدان کوئی نہیں۔ بہترین منتظم، اعلیٰ کارکردگی، بہادری، بے باکی، سادگی اور عوام میں ہردلعزیزی، ایسا کیوں تھا؟اس کی وجہ صرف اور صرف اختیارات مقامی سطح تک منتقل کرنا تھا ۔ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی رہی ہے، جہاں اختیارات صرف بڑے ہاتھوں تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں ۔اس بات سے انحراف ممکن نہیں کہ جب تک عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوں گے ،اس وقت تک کوئی بھی حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی۔کیونکہ ملک میں عوامی حقوق کے تحفظ کے لیے آئینی ادارے اور منتخب نمائندے موجود ہونے کے باوجود ،عوام کے مسائل حل نہیں ہو رہے ۔ عوامی مسائل جوںکے توں برقرار ہیں۔ یوں تو اس کی بیشمار وجوہات ہیں، لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ اختیارات کی نچلی سطح پر عدم منتقلی ہے ۔ لوکل گورنمنٹ کا قیام نہ ہونا ہے ۔خیر اب ایسا ہونے جارہا ہے یعنی بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں اور عوام میں اس کارنامے پرخوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔
پاکستان میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرا تب بلدیاتی الیکشن ہوئے تھے۔اب تک 68 برس میں صرف سات بار بلدیاتی انتخابات ہوئے ہیں وہ بھی غیر جماعتی ، اب اتنے برسوں کے بعد عدالت کے بار بار کہنے پر حکومت پنجاب و سندھ میں الیکشن کروارہی ہے۔اس سے قبل بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ہو چکے ہیں ۔ پنجاب و سندہ میں آج کل امیدوار مسلسل اپنے ووٹرز سے رابطہ کرکے اپنی کمپین چلا رہے ہیں ۔بلدیاتی امیدواروں نے دوسرے مرحلے میں حصہ لینے کے لیے اپنی سرگرمیاں تیز کر دی ہیں ۔اب وہ اپنے حلقے میں ہونے والی ہر ایک فوتگی پر دیکھے جا سکتے ہیں ۔بیماروں کی عیادت ہو رہی ہے ۔عوام کے مسائل حل کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔
بلدیاتی الیکشن میں امیدوار ہر وہ طریقہ استعمال کر رہے ہیں، جس سے وہ کامیاب ہو سکیں ،ان کی طرف ووٹر متوجہ ہوں، اس کے لیے چند دن سے امیدواروں کی جانب سے پبلک مقامات پر پینا فلیکس سے رنگ بکھرگئے ہیں، دوسری طرف لوگوں کے ضمیر خریدنے کے لیے دولت کا بے دریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ہمارے ملک میں اب سیاست ایک کاروبار بن چکی ہے، امیدوار پہلے پیسے لگاتے ہیں، پھر پیسے کماتے ہیں۔
الیکشن مہم پہ بے دریغ پیسہ لگانے والوں سے اگر عام دنوں میں کوئی بھکاری بھیک مانگ لے تو انہیں ناگوار گزرتا تھا ،برسوں کی لاتعلقی اور عوام سے دوری الیکشن کے دنوں میں اچانک ختم ہوتی دکھائی دی، امیری اور غریبی کا فرق مٹتا نظر آیا، ایسے ووٹر جن کے پیارے کئی برس قبل اللہ کو پیارے ہو چکے تھے ، امیدواروں کو وہ بھی یاد آئے، ان کے گھروں میں جاکر مگرمچھ کے آنسوئوں نے پاکستانی اور انڈین فلموں کے ٹریجڈی اداکاروں کی اداکاری کو مات دے دی”۔گلی محلوں میںایک رونق لگ گئی ہے ،میلے کا سماں ہے، بازار گلیاں دکانیں رنگ برنگے اشتہارات سے بھر گئے ہیں ۔وہ جو پہلے کبھی کبھار نظر آتے تھے، اب گلے مل کر گلے مٹا رہے ہیں ،شام کو علاقے کے معززین کے گروپ ڈور ٹو ڈور عوام سے مل رہے ہیں ۔اب نمائندے عوامی مسائل کے حل کے لیے تھانے کچہریوں میں ان کے ہمراہ جا رہے ہیں۔
بلدیاتی انتخابات کے بعد امید کی جا رہی ہے کہ اب سیوریج ،گلیوں،صفائی ،چھوٹے چھوٹے سینکڑوں مسائل کے حل کیے جائیں گے۔صحت و تعلیم ،صفائی ،چھوٹے چھوٹے مسائل ،نکاسی آب ،تھانہ کچہری وغیرہ کے مسائل اب حل ہوں گے، حل نہ ہوں گے تو عوام ان مقامی نمائندوں سے پوچھیں گے ،ان سے ملنا آسان ہے ،بات کرنا آسان ہے ۔منتخب نمائندہ مقامی ہونے کی وجہ سے وہ لوگوں کی ضروریات سے بڑی حد تک واقفیت رکھتا ہے۔ یوں وہ فنڈز کو حقیقی جگہوں پر صرف کرسکے گا۔صرف ہمارے ملک میں جہاں جمہوریت کی رٹ سب سے زیادہ لگائی جاتی ہے ،چشم فلک نے یہ تماشا دیکھا کہ عوامی نمائندوں نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا کہ مقامی حکومتوں کا قیام عمل میں نہ لایا جائے، اور اس پر حیرت یہ کہ یہ بل منظور بھی کر لیاگیا تھا ،ایسا عدالت کے احکامات کے باوجود ہوا ،لیکن عدالت بھی پیچھے ہی پڑ گئی، جس وجہ سے اب الیکشن ہونے جا رہے ہیں ۔جس کے پہلے مرحلے کی تکمیل ہو چکی ہے۔
اس مرحلے کی تکمیل میں عوام کا خون شامل ہے ۔ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا اس کو روکا جا سکتا تھا ۔بعض جماعتیں الیکشن سے قبل ہی کہہ رہی تھیں کہ فوج کو تعینات کیا جائے اگر ایسا کیا جاتا تو یہ پہلا مرحلہ بھی خوش اسلوبی سے مکمل ہو جاتا اور اپنے پیچھے تلخ یادیں نہ چھوڑ کے جاتا ۔ عوام کے مقامی مسائل مقامی حکومتیں ہی حل کر سکتی ہیں ۔پینے کے لیے صاف پانی ،نکاسی آب کا بندوبست ،محلوں کی گلیوں کی مرمت ،کھالوں پر پلیاں وغیرہ اس سے پہلے گزشتہ برس حکومت نے بلدیاتی الیکشن کروانے کی حامی بھری ،نمائندوں نے کاغذات جمع کروائے، اس کے بعد ملتوی ہوگئے ،وجہ مردم شماری ،جماعتی و غیر جماعتی ،حلقہ بندیاں بتائی گئی تھی۔انتخابات نہ کروانے کی ایک سب سے اہم وجہ ”اختیارات کی منتقلی” کا خوف رہا ہے ۔لیکن اس مرتبہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیادوں پر ہو رہے ہیں۔اس میں سب سے زیادہ کوشش تحریک انصاف نے کی ہے۔
ان انتخابات کے تین مراحل ہیں۔جس کا پہلا مرحلہ 31 اکتوبر کو مکمل ہوا، جس میں پنجاب میں حکمران جماعت یعنی مسلم لیگ ن پہلے آزاد امیدوار دوسرے تحریک انصاف تیسرے اور پی پی پی چوتھے نمبر پر رہی اور سندھ میں بھی حکمران جماعت ک یعنی پی پی پی کا پلڑا بھاری رہا ،دوسرے نمبر پر آزاد امیدوار اور تیسرے نمبر پر فنکشنل لیگ رہی ۔آزاد امیدواروں کا اس اکثریت سے جیت جانا سیاسی جماعتوں کی مقبولیت میں کمی کا اعلان ہے ۔لیکن عوام کے ساتھ یہ آزاد امیدر جیت کر پھر دھوکہ کر جاتے ہیں جب وہ کسی جماعت خاص کر حکومت میں شامل ہو جاتے ہیں۔خیر اس پر پھر کبھی لکھیں گے ۔اب دیکھتے ہیں اس دوسرے مرحلے میں 19نومبرکو کس کا پلہ بھاری رہتا ہے۔
تحریر: اختر سردار چودھری، کسووال