لاہور: پنجاب حکومت نے نیب کو اورنج لائن ٹرین منصوبے کا مکمل ریکارڈ فراہم کرنے سے انکار کر دیا، پاکستان چین کے درمیان ہونیوالا معاہدہ نیب کو دینے سے انکار کر کے انہیں صرف بریفنگ دینے سے متعلق جواب دیا ہے جبکہ دوسری جانب پنجاب کمپنی سکینڈل میں نیب نے قائداعظم سولر پاور کمپنی میں مبینہ طور پر 2 ارب 30 کروڑ کی بے ضابطگیوں کی بھی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔ محکمہ خزانہ پنجاب کے بعض افسران یہ واضح کر چکے ہیں کہ قائداعظم سولر پاور کمپنی سے متعلق جو آڈٹ رپورٹ سامنے آئی ہے اس میں واضح طور پر کئی اہم معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے ، سابق سی ای او نجم شاہ جو کہ اس وقت تعینات تھے ان سے جواب طلب کیا جا سکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیب نے اورنج لائن ٹرین سے متعلق اہم ریکارڈ حاصل کر نے کیلئے دو لیٹر ڈی جی ایل ڈی اے کو لکھے جس کے بعد وہ لیٹر ڈی جی ایل ڈی اے زاہد زمان نے پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی کو بھجوا دئیے۔ ماس ٹرانزٹ اتھارٹی حکام کا کہنا ہے کہ اورنج ٹرین سے متعلق معاہدے نیب کو فراہم نہیں کر سکتے، صرف بریفنگ دیں گے، نیب کو کچھ اہم ریکارڈ مجبوری کے باعث نہیں دے سکتے، اورنج ٹرین میں ہونیوالی مبینہ بے ضابطگیوں سے متعلق بھی کئی اہم میٹنگ منٹس اور معاملات سے متعلق نیب کو ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ دوسری جانب آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے بھی ایک سپیشل آڈٹ رپورٹ مرتب کی ہے جس میں کئی معاملات کی نشاندہی کی گئی ہے، جس پر گزشتہ دو ہفتوں میں متعدد اجلاس ہوئے اور اس معاملے پر اعلٰی حکومتی عہدیدار بھی ایک میٹنگ میں برس پڑے اور افسروں کو ہدایت کی کہ آڈٹ پیرے فوری طور پر آڈٹ حکام سے ملکر حل کئے جائیں، اعلٰی حکومتی عہدیدار کو بریفنگ دیتے ہوئے محکمہ خزانہ کی جانب سے بتایا گیا کہ میرٹ کے برعکس من پسند کمپنی کو ٹھیکہ دینے سے 2 ارب 22 کروڑ کا نقصان ہوا۔
واضح رہے کہ آڈٹ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ایک کمپنی چینٹ سٹوڈ جو کی بڈ کم سے کم تھی جو 20 کروڑ 62 لاکھ 81 ہزار ڈالر تھی، اس کو بغیر کوئی وجہ بتائے ختم کر دیا گیا اور دوسری کمپنی ٹبیہ ٹی بی وی اے کی 22 کروڑ 57 لاکھ 68 ہزارڈالرکی بڈ منظور کر لی گئی۔ کمپنیوں کی جانچ پڑتال پہلے کرنے کے بجائے ایک کمپنی کو مسترد کرنے کے بعد جانچ پڑتال کا عمل شروع کیا گیا تھا۔ جس میں پیپرا رولز کی سخت خلاف ورزی کی گئی، سب سے کم بڈ دینے والی کمپنی کو ٹھیکہ نہ دینے سے ایک کروڑ 93 لاکھ 45 ہزار ڈالر کا سرکاری خزانے کو نقصان ہوا ہے۔ جو کہ تقریباً دو ارب روپے سے زائد رقم بنتی ہے، اسی طرح راشد مجید نامی شخص کو بغیر سوچے سمجھے کنسلٹنٹ بھرتی کر لیا گیا کیونکہ راشد مجید قائداعظم سولر پاور کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کا ممبر بھی تھا، ایک بینک کا ایڈوائزر بھی تھا اور پھر راشد مجید پرکیورمنٹ سمیت متعدد کمپنیوں کا بھی ممبر رہا ہے۔
اسی طرح متعلقہ کمپنی میں 8 کروڑ 27 لاکھ کی بے ضابطگیاں سامنے آئیں۔ جس میں واضح طور پر لکھا گیا کہ راشد مجید کو کن شرائط پر کنسلٹنٹ بھرتی کیا گیا اور انہوں نے پھر من پسند کمپنی اور دیگر کمپنیوں کو خفیہ معلومات دیں آڈٹ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ غیر ملکی انجینئر کو بھاری تنخواہ و دیگر مراعات پر رکھا گیا اور خلاف قانون گھر، گاڑی اور دفتر کا فرنیچر خریدنے تک کی اجازت بھی دی گئی۔ اس حوالے سے محکمہ خزانہ پنجاب حکام کا کہنا ہے کہ آڈٹ پیرے سامنے آئے ہیں جس کو دیکھ رہے ہیں اور اس پر کئی اجلاس بھی ہو چکے ہیں، مزید بھی اجلاس ہو رہے ہیں اور اس کو سیٹل کرنے کے لئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔