تحریر : شاہ بانو میر
میرے گھر کے عقب میں ٹرین کیلئے پل بننا شروع ہوا 2010 سے کنسٹرکشن شروع ہوئی بلآخر 2015 کے آخر میں پُل مکمل ہوا .اتنے سال ہماری روڈ بلاک رہی ہیوی وہیکلز کی وجہ سے جو تعمیراتی سامان لاتے رہے . اتنے سال کسی نے کوئی سیاست نہیں کی نہ ہی کوئی سیاستدان یہ سوچ سکتا تھا کہ عوامی ترقی پر میں شور شرابہ مچاؤں کیونکہ وہ جانتا تھا یہ قوم باشعور ہے کسی سیاسی رہنما کے پیچھے ایسے ہی نہیں کھڑی ہوگی جب تک کہ کوئی ٹھوس وجہ نہ ہو یہ ٹرین جواب ٹرین چلائی جائے گی یہ ملحقہ چھوٹے شہروں کو آپس میں ملا کر سڑکوں کا طویل سفر مختصر کر کے ٹرین سے محض 15 منٹ کر دے گی ورنہ پون گھنٹہ یا رش ہو تو گاڑی اور بس پر ایک گھنٹہ اس مختصر فاصلے کو طے کرنے میں لگ جاتا ہے .ذہنی کوفت کا شکار لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ہے کہ یہ ٹرین انہیں بہت سہولت دے گی اس سے پہلے سینٹ دینیز سے گارج لے گونیس ٹاؤن تک رش کے بڑھنے کی وجہ سے بس کو کینسل کر کے دس سال تک طویل منصوبہ مکمل کیا گیا مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اس وقت اس اہم ترین سڑک پر ٹرام بنانے کی وجہ سے گھنٹوں کا سفر بن جاتا تھا جو محض بیس پچیس منٹ کا ہوتا تھا۔
باشعور قوم مہذب کا ٹیکہ ماتھے پے لگا ہوا ہے . انہوں نے طویل وقت نظم وضبط صبر کے ساتھ ہر مشکل کو جھیلا ایک منٹ کا انتظار نہ کرنے والی یہ قوم گھنٹوں طویل قطاروں میں رہی اس پراجیکٹ کو مکمل ہونے تک کبھی کوئی احتجاج کوئی سیاست چمکتی ہم نے نہیں دیکھی؟ کامیاب قوم کامیاب نظام عمارتیں پُل سڑکیں ٹرام دیگر ترقیاتی کاموں کو آپ ایک ہی انداز میں ایک ہی رفتار پے وقت مقررہ تک مکمل ہوتے دیکھتے ہیں کئی کئی سال پر محیط یہ کنسٹرکشن کسی بھی حکومتی دباؤ میں نہیں آ سکتی اپنا کام کریں گے گو گزشتہ حکومتی وزیر نے اس کا آغاز کیوں نہ کیا ہو. ہمارے ملک کی طرح سیاسی عناد میں قومی نقصان نہیں کیا جاتا کہ سابقہ وزیر کے بہترین منصوبے کو درمیان میں اس لئے چھوڑ دیا جائے مُبادا اسکو کوئی اچھے انداز میں یاد کر کے اگلے الیکشن میں ان کے ووٹ کم نہ کرا دے آسان حل کہ اس کے ترقیاتی کام کو رکوا دو ہمیشہ یہی دیکھی سفاک سیاست پاکستان کی۔
دوسری جانب یہاں میں نے بغور مشاہدہ کیا عقب میں بننے والے پُل کا تو اتنے سالوں میں یہی دیکھا ہمارے سٹریٹ کے گھروں سے متصل عقب کے گھر میونسپل والوں نے سب سے پہلے خریدے کسی اپوزیشن نے شور نہ مچایا کیونکہ باشعور پڑہی لکھی قوم کو خود پتہ ہے کہ یہ ان کے ملک کی ترقی کو مزید آگے لے جا رہے ہیں یہ ٹرین اب چلنے والی ہے بجلی کی تاروں کا کنکشن کیا جارہا ہے پہیہ کار کا ہو ٹرک کا یا ٹرین کا ہمیشہ جب چلتا ہے تو عوام کیلئے آسانی اور خوشحالی لاتا ہے سمجھ سے بالاتر ہے کہ پکستان کے اچھے خاصے ذہین حب الوطنی کے جزبے سے معمور افراد کیسے صرف سیاست کو زندہ رکھنے کیلئے عوام کی خوشحالی کا راستہ روک رہے ہیں جو لوگ کچھ شعور رھتے ہیں وہ اس بے وقت کے احتجاج سے 2 رائے اخذ کر رہے ہیں 1 تو ترقی کا معیشت کا اقتصادیات کا اس تیزی سے رواں ہو رہا ہے کہ 2018 تک مخالف سیاسی حریفوں کے پاس کوئی ایساجواز باقی نہیں رہے گا جس سے وہ اس وقت کی طاقتور سیاسی حریف جماعت کو شکست دے سکیں 2 یہ دیکھنا مقصود ہے کہ کہیں طویل عرصے کی غیر حاضری نے عوام کو ان کے نام بھلا تو نہیں دیئے۔
پاکستان کی سیاست سفاک ہے۔ بے رحم ہے صرف سیاست کرنی ہے نقصان یا نفع یہ ان کا مقصد نہیں یہی شور میٹرو پر سنا تھا سوچتی تھی نجانے کتنا برا منصوبہ ہے جو اس قدر واویلا ہے اور کوئی کان نہیں دھر رہا لیکن جب میٹرو ٹرین پر بنی ایک وڈیو نظر سے گزری تو گویا مسمریزم سا ہو گیا پاکستان میں بالکل فرانس جیسی سہولیات ؟ اور یہ وہ سہولیات ہیں جن کو ہمیشہ استعمال کرتے ہوئے دل سے دعا کی کہ اے اللہ کرم کر ہمارے ملک پر بھی وہاں کے لوگوں کو بھی ایسے شاندارذرائع آمد و رفت عطا فرما ترقی کا عنوان ہیں یہ پہیے جو چل رہے ہیں جو عام انسان کا معیار زندگی اور سوچ کو بلند کر رہے ہیں سیاست کو سیاست کی طرح کریں اپوزیشن کے پاس ایسا طاقتور نام ہے جو اب بڑے بڑے دل گردے والوں کے چھکے چھڑوا دیتا ہے اورنج ٹرین پر اگر کوئی مالی بد عنوانی ثابت ہوگی تو اچھی بات ہے آپ کیلئے 2018 میں شاندار کامیابی حاصل کرلیں گے. لیکن مجھ سمیت پر پاکستانی جانتا ہے کہ اب ایسا کرنا ناممکن ہے . عوامی سہولیات کو فروغ دیجیے اس ملک کے وہی لوگ اس ملک کے اندر رہ گئے جو کہیں جانے کا سامان نہیں رکھتے تھے یاد رہے یہ وہی ہیں جو اس ملک کو لوٹ نہیں سکے اپنی نسلیں مملک کے خزانوں کو خالی کر کے محفوظ نہیں کر سکے . یہ ان کے جرائم ہیں . ان کو ان کےان جرائم کی سزا مزید مت دیں مدتوں بجلی کی بندشیں روزگار کا فقدان فاقے انہوں نے کاٹے پانی کی نایابی سے لے کر ہر ہر پریشانی کو اس بہادرعوام نے سہا ہے
اب اگر ان کی دعائیں رنگ لا رہی ہیں تو سیاست کی جا رہی ہے ان حرماں نصیبوں کی خوشحالی پر؟ کیسے حب الوطن ہیں آپ؟آپ سب بھی تو یہی سوچتے ہیں کہ اس اجڑے بکھرے ٹوٹے پھوٹے پاکستان کو اب منتج کرنا ہے اور ترقی کے سنہری راستے پر تابانی دینی ہے۔ اس تابانی کی ایک قسم اورنج ٹرین ہے اورنج ٹرین کیلئے ادائیگی سے حاصل کردہ گھروں پر حکومت وقت کیسے غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنا سکتی ہے جب کہ 2018 قریب ہے ؟ یہ سب سیاسی کرشمہ ساز ہیں جو لوگوں کو ہمیشہ کی طرح کچھ دے دلا کر احتجاج کروا رہے ہیں سیاست کو چمکائیں جہاں سیاسی حریف ہو جہاں مظلوم عوام ہو ان پڑھ ہو آپ پر اندھا یقین رکھتی ہو خُدارا اس پر مزید ظلم مت کیجئے غیر حقیقی معلومات دے کر وقتی طور پے ملک کے اندر اضطراب پیدا کیا جا سکتا ہے . چند روز ملک کو پھر سے 2014والی کیفیت سے دوچار کیا جا سکتا ہے لیکن شائد ایک بار پھر 2017 میں آپکو اس ملک گیر احتجاج کے نتیجے میں ملنے والی مایوسی اور ناکامی پر کہنا پڑے کہ ‘2016 کا سال کافی مشکل سال تھا “” جیسے 2015 میں آپ نے کہا جد وجہد کی ابتداء آپ کر لیتے ہیں۔
لیکن اس کے بعد معاملات سنبھالنے خود آپ سے آپکے رفقاء کار سے مشکل ہو جاتے ہیں .البتہ صرف ایک فائدہ ہوگا کہ ابھی منظر عام پر آنے کیلئے کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی با مقصد نعرہ نہیں ہے تو پاکستان سے لے کر پورے یورپ تک ایک وجہ مل جائے گی بیانات دینے کیلئے اور تصاویر کیلئے مگر یہ سنجیدہ اور پُختہ سیاست نہیں وقت گزاری ہے اس کی بجائے ملک جتنے مشکل دوراہے پے کھڑا ہے اس وقت مکمل خاموش سیاست ہونی چاہیے اورنج ٹرین پر احتجاج صرف اور صرف نیم مردہ سیاست کو وقتی آکیسجن دے کر عوام کے سامنے خود کو دکھانا ہےکاش ہم عوام کے لئے اٹھائے گئے ہر کامیاب قدم کو بڑھ چڑھ کر خوش آمدید کہتے اور سیاست کو صرف حریفوں سے مقابلہ کے وقت اپناتے کاش بطور پاکستانی مجھے جو بات حق لگی ازروئے قرآن پاک کہنا ضروری تھا لہٍذا کہہ دی۔
تحریر : شاہ بانو میر