اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیر خزانہ اور اشتہاری ملزم اسحاق ڈار کو وطن واپس لانے کیلئے تمام اداروں کو وزارت داخلہ کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے عطاء الحق قاسمی کی بطور ایم ڈی پی ٹی وی تقرری کیس کی سماعت کی۔ اسحاق ڈار عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ عدالت نے وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے عطاء الحق قاسمی کی تنخواہ کی منظوری کی سمری کا ریکارڈ طلب کر لیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ بتائیں اسحاق ڈار کو کیسے واپس لانا ہے، کیا عطاء الحق قاسمی کو پندرہ لاکھ ماہانہ دینے کا جواز تھا، ہو سکتا ہے یہ معاملہ نیب کو بھجوا دیں، تقرری قانونی تھی یا غیر قانونی فیصلہ کریں گے۔
سابق سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ عطاء الحق قاسمی کی تنخواہ کی سمری وزارت اطلاعات نے بھیجی، وزیر اعظم ہاؤس نے وزارت اطلاعات کی سمری کو رپورٹ کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وزیر اعظم کے پاس تنخواہ کی سمری کو سپورٹ کرنے کا اختیار کہاں سے آیا؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ مقدمہ نیب کو نہ بھیجا جائے، اگر معاملہ میں ملوث افراد ادائیگی کر دیں تو یہ بہتر حل ہے۔ وکیل عائشہ حامد نے کہا کہ عطاء الحق قاسمی سے رقم واپسی کے حوالے سے ہدایات لینے کے لیے وقت دیا جائے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دوسروں کی ذمہ داریاں اٹھا کر تھک گئے ہیں، کرپشن سے بڑھ کر ملک کے لیے کوئی کینسر نہیں، سرکاری ہسپتالوں کی ادویات جعلی نکلتی ہیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے۔
وزارت داخلہ نے کہا کہ نیب نے ان کے ریڈ وارنٹ کے لیے درخواست دی ہے، نیب کی درخواست پر عمل ہو رہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت داخلہ کے پاس اس طرح کے مقدمات میں واپسی کا کیا پلان ہے، اگر کوئی پاکستان کو لوٹ کر تباہ کردے تو کیا حکام ملزمان کو بیرون ملک سے نہیں لا سکتے ؟، سابق وزیر اعظم بھی لندن میں ملزم سے ملتے رہے ہیں، کیا کسی عدالتی مفرور کو وطن واپسی لانے کا کوئی میکانیزم ہے؟۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت 14 جولائی تک ملتوی کرتے ہوئے اسحاق ڈار کی واپسی کے لیے تمام اداروں کو وزارت داخلہ کی مدد کرنے کا حکم دیا۔