بی بی سے اس کا تعلق اصلی اور دیرینہ لیڈروں سے بھی زیادہ دکھائی دیتا تھا۔ طارق وحید بٹ جیسے لیڈر بھی اسے اپنے گھر میں ہونے والی ضیافتوں میں مدعو کرنے لگے۔ پارٹی میں اپنی ’’حیثیت‘‘ سے اس نے اپنے خاندان اور گھرانے کو بھی بہت فوائد پہنچائے۔ اس شخص نے میڈیا میں بھی اپنے تعلقات کا دائرہ وسیع کیا۔ میڈیا کی ضرورت پڑتی تو جو کام کوئی اور نہ کر سکتا یہ شخص انجام دے دیا کرتا تھا۔ ایک دن طارق وحید بٹ کے مصری شاہ والے آبائی گھر میں جہانگیر بدر گلہ کر رہے تھے کہ ایک اخبار نے ان کے خلاف مضمون شائع کیا ہے اور میرا جواب شائع نہیں کر رہا، وہ ’’شخص‘‘ بھی وہاں موجود تھا اس نے جہانگیر بدر سے کہا ’’آپ کا جوابی مضمون اسی اخبار میں کل چھپ جائے گا‘‘ اور اگلی صبح کے اخبار میں واقعی جہانگیر بدر کا مضمون چھپا ہوا تھا۔ ٭٭٭٭٭ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کا تختہ الٹا تو کچھ دنوں کے بعد پیپلز پارٹی کے اسی رپورٹر نے اپنے تراشے ہوئے اسی’’لیڈر‘‘ کے ساتھ میرے گھر کے پھیرے لگانا شروع کر دیے، مجھے ان پھیروں کی وجہ سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ ایک دن حوصلہ کرکے میں نے ان دونوں سے پوچھ ہی لیا،،، آپ روزانہ آ رہے ہیں، شاید مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں اور کہہ نہیں پا رہے؟ پیپلز پارٹی کا رپورٹر آہستگی سے بولا،، شاہ جی! آپ مہربانی کریں تو میرے ’’دوست‘‘ کو جنرل کی حکومت میں وزارت مل سکتی ہے، میں یہ بات سن کر سکتے میں آ گیا اور آج تک نہیں سمجھ سکا کہ اس رپورٹر نے کس’’مخبری‘‘ پر مجھے پرویز مشرف کا دوست سمجھ لیا تھا۔۔۔۔۔۔
لاہور (ویب ڈیسک) پاکستان میں آج سیاست اور صحافت جس نازک موڑ پر کھڑی ہیں یہ کئی نام نہاد سیاستدانوں اور نادان صحافیوں کا نامہ اعمال ہے۔ یہ سب کچھ ایک دن میں نہیں ہو گیا، اس تباہی کے پیچھے ایک طویل’’جدوجہد‘‘ ہے۔ طے شدہ منصوبوں اور حادثاتی طور پر صحافی اور سیاستدان بن جانے والے
نامور کالم نگار خاور نعیم ہاشمی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ افراد نے تباہیوں اور بربادیوں کی تاریخ رقم کی ہے اور یہ کہانی ہے کم از کم نصف صدی کی اور میں سمجھتا ہوں کہ صحافت اور سیاست کے اصل منصب کی بحالی کے لئے اگر آج جدووجہد شروع کرنے کی کوشش بھی کی جائے تو یہ ایک لا حاصل کام ہوگا۔ اگر آج سوشل میڈیا کے ذریعے کروڑوں لوگوں نے ’’صحافت‘‘ شروع کر رکھی ہے تو اس کا سبب بھی وہ صحافی ہیں جنہوں نے اپنی اپنی ’’دکانیں‘‘ کھول رکھی ہیں۔ ہماری صحافت کی بد قسمتی یہ رہی کہ جس رپورٹر کو جو بیٹ دی گئی وہ اس بیٹ والوں کا ’’ساتھی‘‘ بن گیا اور اپنی ذمہ داریوں سے بے وفائی کرتا رہا۔ ایک اخبار میں دو کرائمز رپورٹر ہوا کرتے تھے۔ ایک رپورٹر نے ’’جعلی پولیس مقابلے‘‘ کی خبر اصلی پولیس مقابلہ بنا کر فائل کی۔ خبر اگلے دن چھپ گئی تو دوسرے کرائمز رپورٹر نے نیوز روم میں ،، یہ انکشاف کرکے ’’دھماکہ‘‘ کر دیا کہ وہ اس جعلی مقابلہ کرنے والی پولیس ٹیم کی گاڑی میں سوار تھا، اس رپورٹر نے انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتایا کہ جعلی مقابلہ کرنے والی پولیس پارٹی کا سربراہ اس کا دوست تھا، ’’مقابلے‘‘ سے پہلے وہ پولیس افسر اسے بھی اسی گاڑی میں ساتھ لے گیا تھا جس میں مرا جانے والا ملزم بھی سوار تھا، یہ ان دنوں کی بات ہے جب لاہور میں بند روڈ مکمل طور پر ویران ہوا کرتی تھی اور پولیس کے لئے یہاں بندے مارنا بہت آسان کام تھا۔
اس پولیس دوست کرائمز رپورٹر نے اپنی پولیس والوں کے ساتھ گہری دوستی کا ثبوت دیتے ہوئے بتایا تھا کہ بند ملزم کے ہاتھ پاؤں بیڑیوں سے جکڑے ہوئے تھے، بند روڈ پر ایک جگہ پولیس وین روکی گئی اور ملزم کو نیچے اتار کر بھاگنے کا حکم دیا گیا، اسے زنجیروں سے بھی آزاد نہیں کیا گیا تھا وہ بے چارہ دوڑ کیسے سکتا تھا، تھوڑا سا آگے گیا تو اس پر گولیوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ ایسے جعلی مقابلے آج تک جاری ہیں، تاویل یہ پیش کی جاتی ہے کہ مارے جانے والے ملزم کے ساتھی اسے چھڑانے کے لئے پولیس پر حملہ آور ہوئے تھے اور جوابی حملے میں ملزم اپنے ہی ساتھیوں کی فائرنگ سے مارا گیا۔ اگر اس ملک کے بعض کرائمز رپورٹر پولیس کے ساتھی نہ بنتے تو ’’جعلی‘‘ مقابلوں کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکتا تھا۔ پولیس کے ’’ساتھی‘‘ بننے والے اس قسم کے نام نہاد رپورٹرز کیا کیا فوائد حاصل کرتے ہیں اس کی تفصیلات بھی اگلے کالموں میں قارئین کے سامنے پیش کروں گا۔ اب تو نئے سرے سے صحافت کی بنیادیں رکھنا پڑیں گی۔ میں اس حوالے سے دلائل دینے کے لئے بہت کچھ لکھنا چاہوں گا اور جب جب موقع ملا لکھتا رہوں گا، آج صرف ایک چھوٹی سی کہانی۔ ٭٭٭٭٭ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں جو رپورٹرز کام کرتے ہیں ان کی علیحدہ علیحدہ ’’بیٹس‘‘ ہوتی ہیں، کسی کے پاس کرائمز کا شعبہ ہوتا ہے، کوئی کلچر رپورٹر ہوتا ہے، کسی کے پاس ماحولیات کی ’’بیٹ‘‘ ہوتی ہے، کسی کے پاس صحت کا شعبہ ہوتا ہے۔
کوئی تعلیم کے شعبے کو دیکھ رہا ہوتا ہے، کئی رپورٹر محکموں کی خبریں فائل کرتے ہیں اور اسی طرح سیاست کے شعبہ کو بھی مختلف رپورٹرز کور کرتے ہیں، جیسے مسلم لیگ کے لئے ایک رپورٹر مخصوص ہوتا ہے، کوئی مذہبی جماعتوں کی ذمہ داری انجام دے رہا ہوتا ہے، کسی کے پاس پیپلز پارٹی کی سرگرمیاں رپورٹ کرنے کی ذمہ داری ہوتی ہے کوئی پاکستان تحریک انصاف کا رپورٹر ہوتا ہے۔ آج کی کہانی پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رپورٹر کی ہے اور یہ واقعہ جو آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں چالیس سال پرانا ہے۔ ٭٭٭٭٭ لاہور میں سو میل دورسے ایک شخص وارد ہوا، وہ ایک کامیاب اور نام ور سیاستدان بننا چاہتا تھا۔ اس کے دماغ میں تھا کہ اگر ایسا ہوگیا تو وہ بہت امیر آدمی بھی بن جائے گا اور اس کا اثر و رسوخ بھی بہت ہوگا، اس کا حکم چلا کرے گا۔ لاہور آنے کے چند دنوں بعد ہی اس کی کسی کے وسیلہ سے پیپلز پارٹی کی’’بیٹ‘‘ والے ایک رپورٹر سے ملاقات ہو گئی جو جلد ہی گہری دوستی میں بدل گئی۔ رپورٹر کا تعلق اس بڑے اخبار سے تھا جسے پیپلز پارٹی کا ایک ایک بندہ پڑھتا تھا کیونکہ دوسرے اخبارات کے مقابلے میں اس اخبار میں پیپلز پارٹی کی زیادہ خبریں شائع ہوا کرتی تھیں۔ پہلے پہل تو اس رپورٹر نے اس شخص کو پیپلز پارٹی کا مقامی رہنما قرار دے کر اس کے بیانات چھاپنے شروع کئے۔ پھر اچانک اسے پارٹی کا ’’عہدیدار‘‘ ڈیکلیئر کر دیا۔ اب اس کے بیانات پارٹی کے
جوائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے چھپنے لگے، نیوز روم کے لوگوں نے اس پر اعتراض اٹھایا تو اس کا جواب تھا کہ اگر پیپلز پارٹی والے کوئی شکایت نہیں کر رہے تو آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ نیوز روم کے ارکان عمومی طور پر رپورٹروں سے بنا کر رکھتے ہیں۔ انہیں بھی کئی کام پڑتے ہیں جو وہ رپورٹر حضرات سے ہی کرواتے ہیں۔ پیپلز پارٹی والے بھی براہ راست اس رپورٹر سے ایک نا معلوم آدمی کو پارٹی کا جوائنٹ سیکرٹری بنا دیے جانے پر احتجاج نہیں کر رہے تھے۔ کیونکہ وہ رپورٹر کسی بھی احتجاج کرنے والے کی خبروں کا بائیکاٹ کر سکتا تھا۔ افسوک ناک امر یہ تھا کہ پارٹی کی ہائی کمان کی طرف سے بھی اس ’’صحافیانہ دھاندلی‘‘ کا کوئی نوٹس نہ لیا گیا، پارٹی کی سنٹرل ایگزیکٹو کے ارکان بھی اس رپورٹر کی مٹھی میں تھے اور اس رپورٹر نے پارٹی کے ’’بڑوں‘‘ سے بھی اس شخص کی ملاقاتیں کرانا شروع کر دی تھیں۔ سب سے پہلے خالد کھرل مرحوم نے اس ’’نامعلوم‘‘ آدمی کو ’’قبول‘‘ کیا تھا، پھر جہانگیر بدر جیسے جیالے لیڈر نے رپورٹر کے سامنے ’’ہتھیار‘‘ ڈال دیے تھے، اس کے بعد چل سو چل۔ ٭٭٭٭٭ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت معرض وجود میں آئی تو وہ ’’نامعلوم شخص‘‘ ایک سرکردہ شخص بن چکا تھا۔ پارٹی کی ہر میٹنگ میں وہ نمایاں دکھائی دینے لگا۔ محترمہ بے نظیر شہید تک بھی اس کی رسائی ہو چکی تھی۔ یہ لیڈر اور اس کو تخلیق کرنے والا رپورٹر ایک دوسرے کے دست و بازو بن چکے تھے۔