یہ میرا چمن ہے میرا چمن، میں اپنے چمن کا بلبل ہوں
سر شارِ نگاہِ نرگس ہوں پا بستئہ گیسوئے سنبل ہوں
قطر (محمد طاہر جمیل) قطر میں تنظیم ابنائے قدیم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی دوحہ قطرنے اپنے بانی سر سید احمد خان کی ١٩٨ ویں سالگرہ کے موقع پر ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک شاندار تقریب کا انعقاد ٤ دسمبر ٢٠١٥ کی شام دوحہ کے خوبصورت اور جدید سفائیر پلازہ ہوٹل کے بینکوئٹ ہال میں کیا۔ سر سید ڈے ، دنیا بھر میں ہر اس جگہ جہاںتاریخی اور با وقار مادر علمی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء رہتے ہیں وہ اس دن کو با وقار انداز سے مناتے ہیں ۔ سر سید احمد خان نے اپنی زندگی ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیم اور بہتری کیلئیے وقف کر دی تھی۔
ُ ُان کا شمار ایسی عہد ساز شخصیات میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے فکر و عمل کے ذریعہ اپنی قوم میں ایسا انقلاب برپا کر دیا جس کے اثرات آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں اور ان کے کارنامے صدیوں تک یاد رکھے جائیں گے۔
سر سید احمد خان ١٧ اکتوبر ١٨١٧ ء کو دہلی میں پیدا ہوئے اور ١٨٧٥ ء میں علیگڑھ میں ممڈن اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی جس نے بعد میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کا درجہ حاصل کیا جس کا شمار دنیا کی چند عظیم یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔
آج کی یہ تقریب ثقا فتی اور ادبی رنگ لئیے ہوئے ایک کامیاب تقریب تھی جس میں ٢٣٠ کے قریب مہمانوں نے شرکت کی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی قطر ریل کے سی ای او انجینئیر سعد احمد المہندی تھے۔
آج کا یہ پروگرام دو حصوں پر مشتعمل تھا ، پہلے حصہ کی نطامت عاقل ظفر نے کی جس کا با قائدہ آغاز رب کریم کے با برکت کلام سے ہوا جسکی سعادت ابرار حسن خان نے حاصل کی، جس کے بعد اسٹیج کو با رونق کرنے کیلئے سرور مرزا نے مہمانانِ اعزازی جناب عظیم عباس ( ایم ڈی سلیمان جیولرز)، ڈاکٹر حسن کن ہی ( ایم ڈی شیٹیک عربیہ) ، جاوید احمد ( سربراہ مکینیکل سیکشن اوریدو ) اور شاہد یار خان ( مشیرِتنظیم) کو اسٹیج تک ساتھ دیا اب باری تھی پھولوں کا گلدستے پیش کرنے کی، علی عمران نے عظیم عباس کو، مظفر علی نے حسن کنی کو اور احسن مسعود نے جاوید احمد کو گلدستہ پیش کیا۔
اس رنگا رنگ تقریب میں قطر کے ثقا فتی رقص کو چھوٹے چھوٹے بچوں نے بیحد خوبصورتی سے پیش کیا جسکی تیاری محترمہ ثمرین ظفر، نازیہ ضیا الدین اور غزالہ عدنان نے کرائی تھی۔ تنظیم ابنائے قدیم علیگڑھ مسلم یونیورسٹی دوحہ قطر کے صدر ضیا الدین احمد نے تنظیم کی سال بھر کے مختلف پروگرامز کی مختصر رپورٹ پیش کی اور مہمانون کو استقبالیہ پیش کیا اور عبداللہ النعیمی کا اس تقریب میں شریک ہونے پر خصو صی شکریہ ادا کیا۔ معروف خطاط اور پرانے علیگ جناب سرفراز احمد نے المنائی کو اپنی خطاطی کے نمونے بطور تحفہ پیش کئیے اور اس موقع پر تنظیم کے کام کو سراہا۔ پروگرام میں اس کے بعد جناب افروز تاک ساحب کا تھریر کر دہ ‘ نغنہ علیگڑھ ‘ جس کو علی عمران، عاقل محمود، فیصل اسد، ابرار حسن خان اور سرور مرزا نے انتہائی جوش و جذبہ سے پیش کیا۔
اے علیگڑھ ، روحِ سید، علم و فن کے گلستاں
ہم تیرے ہی پھول ہیں اور تیرے ہی باغباں
شل دیا ہے اس چمن سے اب خزاں کا کارواں
یہاں کی تکبیر و اذاں سے کانپتا ہے آسماں
اے علیگڑھ ، روحِ سید
محتر مہ حنا سرور نے سر سید احمد خان کے بارے میں حاضرین کو اہم معلو مات سے آگاہ کیا، تنظیم کے جنرل سیکریٹری شارق جمال نے اپنی تقریر میں علیگڑھ یونیورسٹی اور عر ب دنیا کے بیچ گہرے تعلق کو پیش کیا اور خصوصاً قطر کے تنظیم سے تعلق کو اجاگر کیا۔ اس طرح کے پروگرامز سے قطر اور اے ایم یو کے درمیان تعلقات مزید مستحکم ہو تے ہیں اور اے ایم یو کے طلباء کا قطر کی ترقی میں ایک فعال کردار ہے۔
زینب احمد نے اپنی تقریر کو خواتین کی تعلیم پر فو کس کیا، احسن مسعود سینئیر علیگیرین نے تنظیم اور مقامی کمیونٹی کو ساتھ ملکر کام کرنے پر زور دیا، حسن کن ہی نے تنطیم کو مشورہ دیا کہ وہ خود کو رول ماڈل کے طور پر پیش کریں، جبکہ عظیم عباس نے اردو زبان کی اہمیت پر زور دیا اور انہوں نے تنظیم کے کا م کی تعریف کی اور اس کے عہدیداروں کو کامیاب پروگرام کے انعقاد پر مبارکباد پیش کئیں۔ اس تقریب کے پہلے حصے کے اختتام پر سپاس نامے پیش کئیے گئے۔ عظیم عباس کے ہاتھوں ، اطہر مرزا، شاہد یار خان، علی عمران، ضیاالدین، عدنان حق، شارق جمال، سرور مرزا اور عاقل محمود جبکہ حسن کنی کے ہاتھوں سپاس نامہ وصول کرنے والوں میں شامل ہیں حامد ظفر، مظفر علی، مظہر داد خان، محمد احمد ، فیصل اسد، عمر اشرف، ثمرین ظفر نازیہ ضیا الدین اور عبداللہ فیصل۔
جو ابر یہاں سے اٹھے گا ، وہ سارے جہاں پر برسے گا
ہر جوئے رواں سے برسے گا ، ہر کوہِ گراں سے برسے گا
ہر سر و سمن پر برسے گا، ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن پر برسے گا
ہر شہرِ طرب پر گرجے گا ، ہر قصر طرب پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے ، یہ ابر ہمیشہ برسے گا
برسے گا برسے گا برسے گا برسے گا برسے گا
مجاز لکھنوی کا لکھاہوا علیگڑھ کا ترانہ ایک سچائی کی طرح آج بھی تر و تازہ ہے، زندگی سے بھرپور اس ترانہ کو دو دفعہ پیش کیا گیا جس نے ہال میں ایک سماں باندھ دیا اور زندگی کی لہر ڈورا دی، اسے گا نے والوں میں شامل تھے، عاقل محمود، علی عمران، فیصل اسد، ابرار حسن خان، سرور مرزا، محمد احمد، شارق جمال، میمونہ عمران، نازیہ عامر، گزالہ عدنان، حنا سرور اور ناہید اختر نے انتہائی جوش و جزبہ کے شاتھ پیش کیا
پرُ تکلف عشا ئییہ کے بعد تقریب کے دوسرے حصہ میں گزرگاہِ خیال فورم قطر کے بانی ڈاکٹر فیصل حنیف نے مشاعرہ کی نظامت سنبھالی، انہوں نے بتایا کہ اکبر الہ آبادی ، سر سید کے ساتھ شدید مخالفت کے بعد بھی انکی وفا ت پر یہ کہہ بنا نہ رہ سکے کہ ،
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کر تا تھا
نہ بھولو فرق جو ہے فرق، کہنے والے، کرنے والے میں
کوئی کچھ بھی کہے پر میں تو یہ کہتا ہوں اے اکبر
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں
فیصل حنیف کا کہنا تھا کہ اردو مشاعرے ہماری تہذیبی روایات کا حصہ ہیں ۔ انہوں نے طاہر جمیل کو علیگڑھ کے ترانہ کے خالق مجاز لکھنوی کی نظم ‘ آوارہ ‘ پیش کرنے کی دعوت دی۔ طاہر جمیل نے اس خوبصورت نظم سے چند منتخب اشعار پیش کئیے۔
شہر کی رات اور میں ناشاد و نا کا رہ پھروں
جگمگاتی، جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک دربد مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں، اے وحشت دل کیا کروں
جن دوسرے شعرائے کرام نے اپنا کلام پیش کیا ان میں وزیر احمد، مقصود انور، افتخار راغب اور شاعر خلیج جلیل نظامی شامل تھے جنہوں نے محفل کے مزاج کو دیکھتے ہوئے خوبصورت اور معیاری شاعری پیش کی اور خوب داد پائی۔ وزیر احمد وزیر نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنے منفرد ترنم اور خاص انداز میں اپنی غزل پیش کرکے سامعین کے دلوں پر خوب جادو جگایا۔
اس سے پہلے میرے دل میں کوئی مہمان نہ تھا
دل دھڑکتا تھا پر ایسا کبھی طوفان نہ تھا
مترنم شاعر مقصود انور کی غزل نے بھی ضوب داد پائی۔
پھول مسلے گئے توڑ ڈالے گئے
اک دھواں سا اٹھا اور اجالے گئے
اپنی مظلومیت کا کسے دوں ثبوت
اب تو مقصود سب آنکھ والے گئے
اب باری تھی جناب افتخار راغب ن کی جنہوں نے اپنے خونصورت اشعار سے مشا عرہ کے آ ہنگ کو مزید بلند کیا۔
دن میں نظر آنے لگے ہیں خواب مجھ کو
اُس نے بھیجا ہے ایک گلاب مجھ کو
کوئی ایسی خطا کروں راغب
جس کا ملتا رہے ثواب مجھ کو
انڈیا اردو سوسائٹی کے بانی صدر و شاعر خلیج جناب جلیل نظامی نے جب اپنے دلکش ترنم میں غزل پیش کی تو محفل میں سرور و کییف کی لہر ڈور گئی، انکے اشعار ملاحضہ کریں۔
آپ کہئیے، کہ تُم ، کہ تُو کہئیے
جو بھی کہنا ہو ، رو برو کہئیے
میں غلط ہوں تو کیجئیے ثابت!
قبلہ رُخ ہو کے ، با وضو کہئیے
اس پروگرام میں دوحہ کی مشہور شخصیات نے شرکت کی جن میں سید عبد الحئی، ڈاکٹر تو صیف ہاشمی، اشرف صدیقی، عائشہ مجاہد، سیا اسد طارق، رشید شیروانی ، احمد زاید ہندی اور کئی دیگر مشہور شخسیات شامل تھیں۔ مشا عرہ کے اختتام پر صدر تقریب احسن مسعود اور مشاعرہ کے مہمان خصوصی بلال امان اللہ موتی نے شاعروں اور نا ظم مشاعرہ کو سپاس پیش کیئں۔ اس کے ساتھ ہی مدتوں یاد رہنے والی تقریب اپنے ا ختتام کو پہنچی۔ یہاں پہ تشنہ لبی مئے کشی کا حاصل ہے۔ یہ بزمِ دل ہے یہاں کی صلائے عام نئی۔