تحریر: محمد شاہد محمود
انکوائری کمیشن نے الیکشن 2013ء کو منصفانہ، شفاف اورآئین وقانون کے مطابق قراردیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ ان انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بعض بے قاعدگیاں سامنے آنے کے باوجود کوئی سیاسی جماعت منظم دھاندلی کے حو الے سے شواہد پیش نہیں کرسکی اورنہ الیکشن پر اثر انداز ہونے یا کسی جوڑ توڑ کے بارے میں کمیشن کے روبرو شواہد پیش کئے گئے، مجموعی طورپر انتخابات 2013ء شفاف ،منصفانہ اورقانون کے مطابق تھے۔
چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں جسٹس اعجازافضل اورجسٹس امیر خانی مسلم پرمشتمل تین رکنی انکوائری کمیشن کی287 صفحات پرمشتمل تفصیلی رپورٹ وزارت قانون کی طرف سے جاری کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طورپر الیکشن 2013ء شفاف اورقانون کے مطابق کرائے گئے تھے، کمیشن کی جانب سے تحقیقات کے دوران سیاسی جماعتوں کی جانب سے جوثبوت پیش کئے گئے ان کاجائزہ لینے سے معلوم ہوا کہ انتخابات میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بعض بے قاعدگیوں کے باوجود ایسے شواہد نہیں ملے کہ یہ انتخابات مجموعی طورپرغیرشفاف تھے اورعوامی مینڈیٹ کے درست وحقیقی عکاس نہیں تھے، دوسری جانب کوئی سیاسی جماعت انتخابات پراثراندازہونے یا منظم دھاندلی کے منصوبے کے حوالے سے کمیشن کو کوئی ثبوت پیش نہیں کرسکی۔
کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہاگیاہے کہ اپنے الزامات اورشکوک کی روشنی میںتحریک انصاف کی جانب سے الیکشن 2013ء کی تحقیقات کر انے کے مطالبات مکمل طورپر بلاجواز نہ تھے تاہم الیکشن کمیشن کے حوالے سے اس رپورٹ میںپہلے سے متذکرہ بعض بے قاعدگیوں کے باوجود پیش کردہ ریکارڈ اورشواہد کی روشنی میں 2013ء کے ا نتخابات شفاف، منصفانہ اورقانون کے مطابق تھے، اور جن پردھاندلی کے الزامات لگائے گئے تھے ان کیخلاف کمیشن میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیاجاسکا۔ وفاقی حکومت اورپی ٹی آئی کے درمیان مفاہمت کی یادداشت کے بعد 5 اپریل 2015ء کوانکوائری کمیشن تشکیل دینے کے بعد 9 اپریل کوکمیشن کاپہلااجلاس منعقد کیاگیا اوربعدازاں 16 ا پریل کوکمیشن کی باقاعد ہ پہلی عوامی سماعت ہوئی۔ مجموعی طورپر39 سماعتوں کے دوران69 مختلف گواہان پرجرح کرتے ہوئے کمیشن نے 3 جولائی کواپنی کارروائی مکمل کرلی تھی۔
تحریک انصاف کے الزامات کی روشنی میں 11 ریٹرننگ افسران نے کمیشن کے روبروپیش ہوکراپنے بیانات قلمبند کرائے اورجرح کاسامناکیا۔مسلم لیگ (ن) اور اس کی ذیلی تنظیموں کے عہدیداران و کارکنان نے جوڈیشل کمشن کے فیصلے کی خوشی میں جشن منایا۔ لاہور سمیت ملک بھر میں مسلم لیگیوں نے مٹھائیاں اور کیک تقسیم کئے۔ شکرانے کے نوافل پڑھے۔ حیدر آباد میں ریلی نکالی گئی۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) ورکرز آرگنائزیشن کے عہدیداروں اور کارکنوں نے مزار اقبال پر حاضری دی اور نواز شریف، شہباز شریف کے حق میں نعرے لگائے۔ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی سیکرٹریٹ پنجاب مسلم ٹائون میں جوڈیشل کمشن کے فیصلے کی خوشی میں کیک کاٹا گیا۔کراچی میں بھی مسلم لیگ (ن) سندھ کے زیراہتمام یوم حق و سچ منایا گیا۔
پریس کلب کے باہر کارکنوں کی بڑی تعداد نے عوامی جلسہ میں شرکت کی اور مٹھائیاں تقسیم کیں۔ عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کرنیوالے انکوائری کمیشن کی رپورٹ حق و سچ کی فتح اور مسلم لیگ ن کے موقف کی جیت ہے، دھرنے اور دھاندلی کی سیاست کرنیوالوںکو قوم سے معافی مانگ کر سیاست سے کنارہ کش ہو جانا چاہیے۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں اس امر کی تصدیق ہو گئی ہے کہ مسلم لیگ ن کو ملنے والا مینڈیٹ قوم کا حقیقی مینڈیٹ تھا اور میاں نواز شریف اور میاںشہباز شریف ملک کے مقبول ترین لیڈر اور مسلم لیگ ن مقبول ترین سیاسی جماعت ہے۔ اس فیصلے سے بلاشبہ سچ اور جھوٹ کافیصلہ ہوگیاہے اور یہ فیصلہ میاں محمدنوازشریف کو عام انتخابات میں حاصل ہونے والی کامیابی سے بھی بڑھ کر ہے جس نے عوام کے سامنے دودھ کادودھ اور پانی کا پانی کر دیا ہے۔
درحقیقت دھرنادینے والوں نے12اکتوبر 1999سے بھی بڑی سازش کی کہ ابھی حکومت نے سانس بھی نہیں لیا تھا کہ یہ لانگ مارچ کی شکل میں چڑھ دوڑے اور حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کی سازش کرتے ہوئے لوگوں کے کاروبار بند کرائے ،چین کے وزیراعظم کے دورے کو موخر کروایا اور یہ سب سازش ریڈ زو ن میں لاشیں گرانے کے لئے تھی ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ان عناصر کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ، 126دن تک ملک و قوم کا وقت ضائع کرنے والے گھر وں کو لوٹ چکے اور میاں محمد نوازشریف کی قیادت میں حکومت آج بھی قائم و دائم ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کے فروغ کی بات کی۔ دھاندلی کیخلاف تمام سیاسی جماعتوں کا موقف ایک تھا۔ ہم نے مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کرنے کی بات کی۔ ہم نے حکومت کو انکوائری کمشن بنانے پر تیار کیا، بعد میں عمران خان نے اپنا طریقہ کار تبدیل کیا۔ عمران خان کا انکوائری کمشن کی رپورٹ قبول کرنا خوش آئند ہے۔ پی ٹی آئی انتخابی اصلاحات کے معاملے پر آگے بڑھے۔ اچھی بات ہے عمران خان نے کمشن کا فیصلہ قبول کیا۔ چاہتے ہیں پارلیمنٹ سمیت تمام ادارے چلتے رہیں۔ رپورٹ کے بعد حکومت کی گردن میں سریا نہیں آنا چاہئے۔ حکومت سے درخواست ہے کہ رپورٹ کے بعد رویہ مثبت رکھے۔ پاکستان میں جمہوریت کی عمر 12 سال ہے۔
آصف زرداری نے انتخابات کو آر اوز کا الیکشن قرار دیا تھا۔ کمشن کی رپورٹ کو تسلیم کیا لیکن اپنے موقف پر قائم ہیں کہ الیکشن آر اوز کے تھے۔ عمران خان نے طاہر القادری سے مل کر سسٹم کیلئے خطرہ پیدا کیا۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کا فیصلہ نہ صرف تحریک انصاف اور حکومت بلکہ سب کے لئے سبق ہے۔ کبھی بھی مسائل گلیوں اور چوراہوں میں حل نہیں ہوتے، سب مسائل کا حل اتحاد اور اتفاق میں ہے، سیاسی معاملات سمیت دیگر معاملات پر دو رائے ہو سکتی ہیں مگر قومی اور عوامی مسائل کے حل اللہ کی مدد اور اتحاد و اتفاق سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے انتخابات میں دھاندلی کے معاملے کی تحقیقات کے معاملے پر بہت وقت صرف کیا تاکہ جو سیاسی انتشار پیدا ہو چکا تھا اس کا حل نکالا جائے اور رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ عدالتیں میڈیا ٹرائل کو نہیں حقائق کو سامنے رکھ کر فیصلے کرتی ہیں، انکوائری کمیشن کی رپورٹ پر ڈھول ڈھمکے کی ضرورت نہیں، کمیشن کی رپورٹ نہ صرف تحریک انصاف اور حکومت بلکہ سب کے لئے سبق ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے ہمیں آگے دیکھنا ہے، پاکستان کو مسائل کے پہاڑ کا سامنا ہے، اللہ کی مدد اور اتحاد سے ہی تمام مسائل کا حل نکالا جاسکتا ہے۔وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہتے ہیں کہ اگلا الیکشن 2018 میں ہی ہوگا جس کے لئے انتظار کرنا پڑے گا لیکن ہم نے 2018ء کا انتظار نہیں کرنا بلکہ ابھی سے انکوائری کمشن کی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی اصلاحات کی جائیں گی۔ جوڈیشل کمشن کا فیصلہ دونوں پارٹیوں کو تسلیم کرنا ہوگا کیونکہ پہلے سے یہ بات تحریری طور پر طے شدہ ہے کہ اگر فیصلہ پی ٹی آئی کے حق میں آیا تو الیکشن اسی سال کرائیں گے اور اگر فیصلہ حکومت کے حق میں آیا تو پی ٹی آئی کے الزامات خود بخود ختم ہو جائیں گے۔ ہم نے اٹھارویں ترمیم کے بعد نگران حکومت سیٹ اپ کا تجربہ کیا ہے اس میں مزید بہتری کی گنجائش ہوئی تو وہ بھی کریں گے۔
دھرنے کے بعد مجھے مذاکرات کی ذمہ داری دی گئی تھی جسے میں نے پوری محنت کے ساتھ پورا کیا ہم نے پی ٹی آئی کے تمام مطالبات پورے کئے اور معاہدے کے بعد جو فیصلہ آیا وہ عوام کے سامنے پیش کردیا۔ تحریک انصاف پارلیمنٹ میں آچکی ہے اب مل کر متحد ہو کر آگے پاکستان کی بہتری کے لئے کام کریں گے۔ پاکستان کو مزید مضبوط بنائیں گے۔ میں کوئی بڑا دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن اب یہ 2013ء والا پاکستان نہیں رہا یہ 2015ء کا پاکستان ہے جس کی مضبوط ہوتی معیشت کی بات پوری دنیا کر رہی ہے۔ بجٹ میں خسارے کو کم کرنے کی کوششیں کریں گے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سب کو مل کر پاکستان کے لئے یکجا ہو کر کام کرنے کی دعوت دی ہے۔ ہم جوڈیشل کمشن کے فیصلے سے سرخرو ہوئے۔ تحریک انصاف کو پارلیمنٹ میں فعال کردار ادا کرنا چاہئے۔
تحریر: محمد شاہد محمود