counter easy hit

مشرف دور میں تہران میں اعلیٰ عہدہ حاصل کر لینے والے اوریا مقبول جان نے ایسی کیا بات کہی تھی کہ آمریت ہاتھ دھو کر انکے پیچھے پڑ گئی

Orihas Jan, who took high positions in Musharraf in Musharraf's era, said that the dictatorship washed hands and followed them.

لاہور (ویب ڈیسک) 2008 ء میں اوریا ،پاکستان کی طرف سے او آر سی ڈی (کے سربراہ بن کر تہران میں تعینات ہوئے تھے۔۔وہ اس عہدے کے لیے ہر لحاظ سے موزوں ترین تھے۔پرویز مشرف کی مطلق العنانیت کا دور تھا اور بڑے بڑے صحافی بات کرتے ہوئے تھراتے تھے۔ایک سرکاری افسر کی بساط اور نامور کالم نگار سعود عثمانی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ مجال ہی کیا تھی کہ اس صدر کے خلاف بات کرے جو فوج کا سربراہ بھی تھا لیکن اوریا نے تہران میں ایک ٹی وی چینل کو جو انٹرویو دیا وہ پرویز مشرف کے لیے ناقابل برداشت تھا۔اسی زمانے میں میرا ایران جانا ہوا۔ تہران میں اس انٹرویو کی گونج تھی ۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ اوریا نے بہت جرأت کا مظاہرہ کیا ۔کچھ کا کہنا تھا کہ دیار غیر میں اپنے ملکی سربراہ کے بارے میں باتیں نہیں کہنی چاہئیں تھیں۔بہرحال اس پر سب متفق تھے کہ اوریا نے جو سچ سمجھا اور جو طریقہ مناسب جانا اس پر بلا خوف عمل کر گزرے۔اوریا کو واپس بلا لیا گیا۔ان سے چھٹکارے کی کئی تدبیریں سوچی گئیں۔ایک تدبیرنیب کی پوچھ گچھ بھی تھی۔حکومت پنجاب میں اپنے اظہارکی وجہ سے وزیر اعلیٰ کے لیے وبال بنے رہے حتیٰ کہ افسر بکارِ خاص بن کر ہی دم لیا۔لیکن قیامت نے ہنوز دم کہاں لیا تھا۔کالم نگاری کسی سرکاری میٹنگ کی محتاج کہاں ہوتی ہے ۔ اوریا جب لاہور منتقل ہوئے تو مختلف مشاعروں اور محفلوں میں ان سے ملاقاتیں رہیں۔قریبی دوستی نہ ہونے کے باوجود بہت اچھا تعلق چلا آتا ہے۔کبھی کبھار گرانی بھی رہی کہ میری ایک دو محفلوں میں جہاں ان کی گفتگو طے تھی ، وعدہ کرنے کے باوجود نہیں آئے ۔یہی سوچا کہ کوئی مجبوری رہی ہوگی لیکن مطلع بھی نہ کرنے اور فون بھی وصول نہ کرنے کی وجہ سمجھ میں آنی مشکل تھی ۔لیکن ان سے میرا دلی تعلق خراب نہیں ہوا کہ اس کی بنیاد ان سے ملاقاتوں پر تھی ہی نہیں۔میں ان کی اس صفت کا ہمیشہ سے معترف رہاکہ کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق وہ اس اعلائے کلمتہ الحق میں نہ ذاتی مصلحت کو آڑے آنے دیتے ہیں،نہ خوف لومتہ لائم کو ۔ اور ایسے لوگ ہیں ہی کتنے ۔ایسے لوگ ہیں ہی کتنے جو سرکاری پلاٹوں کو بھی ٹھوکر مار دیں اور سرکاری مراعات کو بھی ،اس لیے کہ انہیں ناجائز سمجھتے ہوں۔ ایسے افسر ہیں ہی کتنے جن پر ایک پیسہ بد عنوانی کی انگشت نمائی بھی نہ کی جاسکتی ہو ۔ یہ ایک گھاٹی سے ہوکر گزرنا تھا۔اور تم کیا سمجھتے ہو گھاٹی کیا ہے ؟میں نے کبھی انہیں نہ ہر فن مولا سمجھا، نہ معاشیات کا ماہر ، نہ فقیہ نہ محدث۔لیکن اس زندگی کے ہر شعبے میں جن سے ان کا بھرپور واسطہ رہا ہے ، ان کی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ یہ ایک صاحب ِمطالعہ ،صاحب ِدل اور صاحبِ بصیرت کا نقطہ ٔ نظر ہے۔اور اسے ایسی ہی عزت اور توقیر ملنی چاہیے ۔وہ مغرب ، میڈیا ،مروجہ جمہوریت، موجودہ سیاست کے بارے میں جو رائے رکھتے ہیں وہ نئی ہرگز نہیں ۔ 80سال پہلے حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کی کڑی تنقیدکتابوں میں موجود ہے ۔ خود مغربی تعلیم یافتہ اقبال کی نظر میں ان بتوںکی کیا حیثیت ہے ، سب جانتے ہیں۔ لیکن اس دور میں جب ان مورتیوں کے خلاف ایک حرف بولنا زمانے بھر کی ملامت مول لینے کے برابر ہے ،اوریا نے ڈٹ کر ان کے خلاف بات کی ہے ۔ کیا کوئی اور ہے جس کی طرف یہ جملے منسوب ہوں۔ ’’ ہمارے ہاں جب سے میڈیا آیا ہے، بڑی شخصیتیں بننا بند ہوگئی ہیں ‘‘ ’’ میڈیامیں مجھ سمیت کوئی ایک آدمی بتادیں جس نے معاشرے پر دیرپا مثبت اثرات مرتب کیے ہوں‘‘ ایسے اہم دانشور پر بہت بات کی جاسکتی ہے لیکن ایک کالم میں کتنی بات ہوسکے گی ۔ آپ اوریا مقبول جان سے بے شک اختلاف کریں لیکن پہلے اس کا اعتراف تو کریں۔ یاد رکھیں تنقید کا حق اسی کو ہے جو کلمۂ خیر کہنے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو۔کیا آپ دونوں کی ہمت رکھتے ہیں؟

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website