لاہور (ویب ڈیسک) عرفان الحق صدیقی ولد عبدالحق صدیقی سکنہ مکان نمبر 82سیکٹر /3اسلام آباد تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188کا مرتکب ہوا ہے۔ جرم اس قدر سنگین ہے کہ اسے ہتھکڑی پہنا کر عدالت میں پیش کیا گیا۔ تعزیرات پاکستان کی یہ دفعہ 188ہے کیا؟ یہ دراصل اس حکم کی سزا ہے نامور کالم نگار اوریا مقبول جان اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کوئی سرکاری ملازم(Public Servent)دیتاہے۔ پاکستان پینل کوڈ میںاس دفعہ کا انگریزی ٹائٹل ملاحظہ ہو۔ اس میں ’’پبلک سرونٹ‘‘ اور ’’ڈس اوبیڈنس‘‘ کا ترجمہ آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں۔ ”Disobedience to order due promulgated by Public Servent” (ایک سرکاری اہلکار کے حکم کی نافرمانی)تعزیرات پاکستان کی یہ دفعہ اچانک وہاں وارد نہیں ہو گئی بلکہ یہ اس حکم کی نافرمانی *حکم عدولی اور سرکشی کی سزا کا تعین کرنے کے لئے لائی گئی ہے جو ضابطہ فوجداری کے تحت حاصل شدہ اختیارات کے تحت ڈپٹی کمشنر یا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ دفعہ 144کے تحت جاری کرتا ہے۔ دفعہ 144ایک امرت دھارا ہے اور یہ ہر اس کام کو روکنے کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کے لئے کوئی قانون موجود نہ ہو۔ صدر ایوب خان کے زمانے میں اس کا عمومی استعمال جلسے یا جلوسوں کو روکنے کے لئے کیا جاتا تھا جس کے تحت پانچ یا پانچ سے زیادہ افراد کے ایک ساتھ جمع ہونے پر پابندی لگا دی جاتی تھی، جسے غیر قانونی اجتماع یعنی (un lawful assembly)کہا جاتا ہے۔ اسی دفعہ 144کے تحت ڈپٹی کمشنر ہیضے کی وبا سے بچنے کے لئے قلفیوں اور گولے گنڈوں پر پابندی لگاتے تھے‘ گھروں میں زبردستی مچھر مار سپرے کروانے پر مجبور کرتے تھے۔ دفعہ 144کی زبان ایسی ہے کہ وہ ڈپٹی کمشنر کو عوام کے سرعام چھینکنے پر بھی پابندی کا اختیار دیتی ہے، اگر وہ یہ تصور کرے کہ سرعام چھینکنے سے امن عامہ خراب ہو سکتا ہے۔ چونکہ یہ دفعہ مروجہ تمام قوانین سے بالاتر حکم دینے کے اختیار کا اعلان کرتی ہے، اس لئے دفعہ 188تعزیرات پاکستان میں اس کی سزا صرف ایک ماہ رکھی گئی ہے یا پھر معمولی جرمانہ کر کے چھوڑا جا سکتا ہے لیکن اگر مجرم کی گستاخی ‘ نافرمانی اور حکم عدولی ایسی ہو کہ اس گستاخی سے کسی قانونی طور پر ملازم شخص کے لئے 1۔ مزاحمت (obstruction)۔ 2۔ایذارسانی(Annoyance) یا 3۔گزند(Injury)پیدا ہوئی ہویا پیدا ہونے کا خطرہ ہو تو پھر اس کی سزا چھ ماہ ہو سکتی ہے یا اسے تین ہزار روپے جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ سرکار بنام عرفان الحق صدیقی ولد عبدالحق صدیقی اس مضحکہ خیز قانون کا وہ مجرم ہے جس کی عمر تدریس میں گزری، جس کی شاعری میرے جیسے شعرو سخن کے طالب کی تنہائیوں کی ساتھی ہے اور جس کا سفر نامہ حجاز سیدالانبیاء ﷺ کی محبت میں ڈوبے ہوئے قلم کا وہ اعجاز ہے کہ آنکھیں نم کر دیتا ہے۔ شاید ہتھکڑیاں تیار ہی ایسے لوگوں کے لئے ہوتی ہیں۔ ان ہتھکڑیوں کو آصف زرداری‘ نواز شریف ‘ حمزہ شہباز‘ شہباز شریف‘شرجیل میمن اور سعد رفیق کے ہاتھ کے سائز سے خوف آتا ہے۔ یہ بڑے بڑے سرمایہ داروں کی نازک کلائیوں سے کانپ جاتی ہیں۔ ایک منطق بڑی عجیب ہے یہ نئی نہیں ہے اور ہر دور میں دی جاتی رہی ہے کہ کیا وزیر اعظم ‘ یا وزیر اعلیٰ کو ہر گرفتاری کا علم ہوتا ہے یا ہرگرفتاری سے پہلے ان کی منظوری لی جاتی ہے۔ مداحین اس جواب پر تالیاں بجاتے اور سر دھنتے ہیں لیکن مجھے اس بے وقوف قوم کی حالت پر ترس آتا ہے۔ انتظامیہ اور وہ بھی کسی مرکزی یا صوبائی ہیڈ کوارٹر کی انتظامیہ براہ راست وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ سے حکم لیتی ہے اس کے اشارہ ابرو پر چلتی ہے یا پھر ان کے مزاج کے مطابق قدم اٹھاتی ہے۔ میں یہ اس لئے کہہ رہا ہوں کہ مجھے ایک سال صوبائی دارالحکومت کے اسسٹنٹ کمشنر رہنے کا تجربہ ہے اور اس ایک سال میں تین وزرائے اعلیٰ سربراہی کے تخت پر بیٹھے تھے۔ جام غلام قادر‘ ظفر اللہ جمالی اور نواب اکبر بگٹی۔ چھوٹے سے چھوٹا جرم بھی ان تینوں کے سامنے طلبی کا باعث بنتا تھا اور چھوٹے سے چھوٹا ایکشن لینے کے لئے بھی براہ راست منظوری لینا پڑتی تھی۔ کسی بھی ایسے شخص کے لئے یہ بات قبول کی سند حاصل نہیں کر سکتی کہ کسی حکومتی شخصیت یا کسی اپوزیشن کی شخصیت پر بغیر اجازت ہاتھ ڈالا جا سکتا ہے اگر وہ شخص انتظامیہ میں کسی بھی عہدے پر رہا ہو۔ انکم ٹیکس کے نوٹس جاری نہیں ہوتے‘ پانی چوری کے مقدمے نہیں بنتے‘ ان کی ناجائز تعمیرات نہیں گرائی جاتیں۔ یہی اسلام آباد انتظامیہ تھی جو عمران خان کو ٹیلی ویژن پر حملے کے درج شدہ مقدمے پر گرفتار نہیں کرتی تھی‘ قانون بھی موجود تھا۔ سپاہی تھانے میں بھی تھے‘ نفری بلائی بھی جا سکتی تھی۔ اختیار بھی صلب نہیں ہوئے تھے۔ معاملہ ایک یہ تھا کہ ’’اوپر سے اجازت‘‘ نہیں تھی۔ جب اوپر سے اجازت مل جائے تو پھر مرکزی یا صوبائی دارالحکومت کا ایس ایچ او بھی ’’شیر‘‘ ہو جاتا ہے۔ ورنہ وہ ایک حکم کا غلام پیادہ جو آقا کے اشارے پر چوکس رہتا ہے۔ مجرم عرفان الحق صدیقی ولد عبدالحق صدیقی‘ سابقہ استاد‘ کالم نگار‘ مستقل شاعر اور حالیہ مبینہ مالک مکان جس نے اتنی بڑی جسارت کی کہ دفعہ 144کے تحت ڈپٹی کمشنر کے اس حکم کی تعمیل نہ کی کہ اس نے کرایہ دار کا نام پتہ تھانے میں درج نہ کروایا۔ اب انہیں جیل سے رہا کر دیا گیا لیکن کچھ واقعات اور رویے ایسے ہوتے ہیں جو حکومتوں کے لئے آنے والے دنوں کا رخ متعین کر جاتے ہیں۔ نواز شریف صاحب جب دوسری بار دو تہائی اکثریت سے جیتے تھے تو خمار بہت زیادہ تھا‘ فیصل آباد میں ایک انتہائی شریف النفس واسا کے انجینئر کو ہتھکڑی کا حکم دیا‘ ٹیلی ویژن پر نشر کیا۔ ہمارے ایک ڈاکٹر دوست ان کے بھی دوست تھے۔ حج پر جا رہے تھے‘ پوچھا کوئی دعا ‘ کہا روضۂ رسول کے سامنے دعا کریں جیسے مجھے ہتھکڑی لگی‘ اللہ ویسے ہی نواز شریف کو ہتھکڑی لگائے۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھے اور پھر میرے اللہ کا حکم نافذ ہو گیا۔ امریکہ سے واپسی پر ورلڈ کپ جیتنے کے بعد حاجیوں کی طرح ہار پہننے کے بعد ہو سکتا ہے عمران خان کا اعتماد انہیں کچھ بھی کر گزرنے کا عندیہ دے رہا ہو۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب خوشامدی کھل کھیلتے ہیں۔ بیورو کریٹ اپنی چرب زبانیوں کے عروج پر ہوتے ہیں۔ عمران خان وزیر اعظم پاکستان جو پہلے ہی ان کے دام میں گرفتار ہے‘ اس کے لئے اب نکلنا مشکل ہو جائے گا۔ صرف ایک مشورہ ہے کبھی ایوب خان‘ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے خوشامدی بیورو کریٹ کے آخری برسوں میں پھیلائے گئے جال کی کہانیاں پڑھ لیں کہ اب تو ان پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اگر آپ نے پڑھ لیں تو آپ کی نیند حرام ہو جائے گی۔ اس لئے کہ یہ تینوں تو آخری برسوں میں ان خوشامدیوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے تھے‘ آپ کا تو آغاز ہی ایسا ہے۔ آپ شروع ہی میں ان کے نرغے میں آ گئے۔