تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال
بچہ لڑکا یا لڑکی کے بلوغت سے پہلے کی عمر کو کہتے ہیں، ہمارے ہاں جسے عام طور پر سولہ سال سمجھا جاتا ہے ۔اب رہ گئی یتیم کی بات تو یتیم اسے کہا جاتا ہے ،جس کا والد فوت ہو گیا ہو، اس کی خواہ کوئی بھی عمروہ امیر خاندان سے تعلق رکھتا ہو یا غریب سے لیکن یتیم کا عمومی مطلب ہم لیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک نابالغ بچے کے سر سے اس کے والد کا سایہ اٹھ جانا۔ یتیم کا لفظ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی جمع یتٰامی ہے۔ یتیم بچوں نے بھی اپنی ہمت سے وہ کارنامے سر انجام دئیے ہیں کہ عقل حیران رہ جائے۔اس کی سب سے اہم اور جو ہے بھی حرف آخر ہمارے نبی ۖ کی مثال ہے و یسے بھی آقا ۖ کی زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے ۔لیکن ایک یتیم کو آ پ ۖ کی زندگی سے لازمی رہنمائی حاصل کرنی چاہئے۔
اللہ سبحان و تعالی نے زور والوں کا زور توڑنے کے لیے ،گھمنڈ والوں کو نیچا دیکھانے کے لیے ،ایک بے یار ومددگار یتیم بچہ جس کی ولادت سے قبل ہی اس کے باپ کو اٹھا لیا جاتا ہے۔عرب کی سرزمین پر پیدا فرمایا ۔جس بچے نے یتیمی میں پرورش پائی ۔وہ باہمت بچہ جوان ہو،ا تو اسے حکم ملا کہ اپنے خاندان ،قبیلے،ملک ہی نہیں ساری دنیا تک اللہ کی وحدانیت کا پیغام پہنچایا جائے ۔اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اس یتیم کے ذکر ویاد کا یہ عالم ہے کہ جس کی مثال مل ہی نہیں سکتی۔
پاکستان میں موجود 50 لاکھ کے قریب یتیم ہیں(جن کی حتمی تعداد کا تعین ممکن نہیں ہے ۔اس کی درجنوں وجوہات ہیں، جن میں سے سب سے اہم اب تک کسی بھی حکومت کی یہ ترجیح نہیں رہی کہ ایسے اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں ۔اس کے لیے ادارے بنائیں جائیں ۔ تاکہ ان معلومات کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائی جا سکیں ۔بدقسمتی یہ ہے کہ اگر ادارے بن بھی جائیں تو وہاں بدعنوانی کی وجہ سے حقیقی ڈیٹا اکھٹا کرنا مشکل ہو گا۔ ویسے بھی ہر حکومت کی ترجیح کرپشن رہی ہے ۔دوسری وجہ مردم شماری کا نہ ہونا ہے ۔پھر خاندانی نظام ایسا ہے کہ یتیم بچوں کی کفالت کا ذمہ اس کے چچا ماموں اٹھا لیتے ہیں بحرحال ان یتیم بچوں میں سے ) نصف سے زائد بچوں کو ان کے خاندان پال رہے ہیں، عموماً جو رشتہ دار یتیم بچوں کو پناہ دیتے ہیں۔ وہ ان سے گھروں میں ملازموں جیسا سلوک کرتے ہیںبلکہ اس سے بدتر ۔ اللہ تعالی نے حقیقی نیکی کے بارے میں فرمایا ہے کہ ”نیکی کا اصل مزاج یہ نہیں کہ تم اپنے رخ مشرق یا مغرب کی طرف کرلو بلکہ نیکی کی اصل سے آشنا وہ ہیں جو اللہ تعالیٰ، روزِ آخر، فرشتوں، اللہ تعالیٰ کی کتاب، اور سارے پیغمبروں پر ایمان لائے اور حقیقی محبت کی بنیاد پر اپنا مال قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، راہ نشینوں، مانگنے والوں اور بندھنوں میں جکڑے ہوئے لوگوں پر خرچ کرلے اور نماز قائم رکھے اور زکوٰة ادا کرتا رہے اور وہ لوگ جو کوئی صحیح عہد کرلیں تو اسے پورا کرتے ہیں جو مشکل، تنگی، تکلیف اور معرکہ جنگ میں جہاد کے وقت ثابت قدم رہتے ہیں یہی لوگ ہیں بااخلاص اور سچے اور یہی لوگ پرہیزگار ہیں۔
”حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا”میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا شخص جنت میں اِس طرح ہوں گے ۔ اور (آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ) اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی سے اشارہ کیا اور دونوں کے درمیان کچھ فاصلہ رکھا۔”اِس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور ابو داود نے روایت کیا ہے ۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
اندیشہ فرید جس دن پیدا ہوئی، اسی دن روس نے افغانستان پر حملہ کیا تھا اور اسکا سارا گھر تباہ ہو گیا تھا ۔ اندیشہ کا بچپن بطور ایک پناہ گزین گزرا۔جنگ جاری رہی ،اس کے اردگرد یتیم بچے جمع ہوتے چلے گئے ۔جن کے والد ین دشمن کی اندھی گولی کا نشانہ بن چکے ہوتے ۔جب انہیں اندازہ ہوا کہ یتیمی اور بے سہارابچوں کی زندگی کتنی کٹھن ہوتی ہے اس نے یتیم بچوں کے لیے کچھ کرنے کا عزم کیا۔
آخر کار باہمت اندیشہ فرید نے چند سال قبل کابل میں یتیم بچوں کے لیے افغان چائلڈ ایجوکیشن اینڈ کیئر آرگنائزیشن قائم کی یعنی یتیم خانہ کھولا ۔ ان کی اس کاوش کو بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا جا رہا ہے ۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اندیشہ کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا ”اندیشہ فرید ایک غیر معمولی خاتون ہیں، جنہوں نے گوناگوں خطرات کے باوجود افغانستان میں نئی نسل کو تعلیم دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔ ان کی اس کاوش سے افغانستان کا ایسا مستقبل ممکن ہے ، جہاں سب کے لیے خوشحالی اور ترقی ممکن ہو۔”
وہ خود کہتی ہیں کہ”میں ان خوبصورت بچوں کو افغانستان کا مستقبل بہتر بناتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں۔ میں انجینئرز کو اس ملک کی تعمیر کرتے اور ڈاکٹروں کو افغان شہریوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ ہمارے ملک میں استادوں کی ضرورت ہے۔ افغانستان میں دائیوں کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں دنیا میں سب سے زیادہ شرح اموات ہے۔ ہمیں ان بچوں کو ایک محفوظ اور پر امن ماحول فراہم کرنا ہے جس سے ان کی زندگیوں میں ایک بڑی تبدیلی آ سکتی ہے اور پھر یہی بچے افغانستان کے مستقبل میں بھی بڑی تبدیلی لائیں گے ۔”یہ تو ایک باہمت بچی کی داستان تھی۔ گزشتہ تین سال سے یتیم بچوں کا عالمی دن بھی منایا جا رہا ہے۔
اس کی ابتدادسمبر 2013 ء کو ہوئی ۔ جب ترکی کی ایک مذہبی تنظیم نے 15 رمضان کو یتیم بچوں کا عالمی دن منانے کی تجویز دی تھی۔ جسے اوآئی سی نے قبول کرلیا۔اب مسلمان ممالک میں ہر سال پندرہ رمضان کو یتیم بچوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں اس وقت 153ملین بچے ایسے ہیں جو اپنے ماں باپ ( یعنی والدین) کو کھوکریتیمی کی زندگی گزاررہے ہیں۔بہت سے ممالک میں یتیم بچوں کی پرورش کا انتظام حکومت نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔
حتمی طور پر ہمارے پاس پاکستان میں یتیم بچوں کے اعداد و شمار کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں،لیکن یہ مسئلہ اْس سے کئی گنا زیادہ سنگین ہے ، جتنا کہ لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ان معصوم بچوں کے جذبات و احساسات کو کیسے کچلا جاتا ہے ۔وہ نفسیاتی مریض بن کر رہ جاتے ہیں ۔سکول جاتے بچوں کو جب وہ دیکھتے ہیں ان کے اندر کیسی قیامت گزر جاتی ہو گئی اس کا تصور کریں تو رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ۔کھیلنے کی عمر میں ان کو ورکشاپوں ،ہوٹلوں ،دکانوںپر کام کرنا پرتا ہے ۔ہم کو سوچنا چاہئے ،ہمارے بچے بھی کل یتیم ہو سکتے ہیں ۔ہمیں اپنے ارد گرد نظر دوڑانی چاہئے ۔ہم ایسا ذرا کر کے دیکھیںتو ہمیں اپنے ارد گرد بچے بدترین حال میں نظر آئیں گے۔ محبوب ظفر صاحب نے کیا خوب منظر نگاری کی ہے۔
نگاہ پڑنے نہ پائے یتیم بچوں کی
ذرا چھپا کے کھلونے دکان میں رکھنا
حکومت پاکستان نے بھی یتیم بچوں کے لیے چائلڈ پروٹیکشن کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا ہے ۔مذہبی و فلاحی تنظیموں نے بھی یتیم بچوں کے لیے ادارے بنائے ہوئے ہیں، جن میں الخدمت فائونڈیشن ، منہاج القران کی آغوش اور دیگر بہت سے فلاحی ادارے وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
تحریر : اختر سردار چودھری، کسووال