لاہور (ویب ڈیسک) پہلے یہ ملاحظہ کریں، آپریشن ابیٹ آباد، تب کی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کی اور سی آئی اے چیف لیون پنیٹا کی Worthy Fights، تینوں کتابیں بتائیں، جب یہ یقین ہو گیا کہ اسامہ ابیٹ آباد میں، تو آپریشن کیسے کیا جائے، صدر اوباما کی سربراہی میںنامور کالم نگار ارشاد بھٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سر جوڑ کر بیٹھے، ایک تجویز، ڈرون حملہ کیا جائے، دوسری رائے، طیارے کے ذریعے اسامہ ہاؤس پر بم گرایا جائے، تیسرا مشورہ، ریڈ کی جائے، ڈرون حملہ اور طیارے کے ذریعے بم گرانے کی تجاویز اس لئے ردّ ہوئیں کہ اس میں بے گناہوں کے مرنے کا خطرہ، پھر سب نے دیکھا امریکی کمانڈوز نے ’ریڈ‘ کی اور اپنے سب سے بڑے دشمن جس پر ہزاروں امریکیوں کے قتل کا الزام، اس کے بیوی بچوں کو ہاتھ تک نہ لگایا، سوائے ایک بیوی کے جس نے مزاحمت کی، باقی کسی کو خراش تک نہ آئی، آگے سنئے، سابق سی آئی اے چیف لیون پنیٹا کی کتا میں یہ واقعہ بھی کہ ’’ جب پتا چلا کہ بیت اللہ محسود اپنے سسرال میں‘ بیوی کے ساتھ گھر کی چھت پر سویا ہوا، تب صدر اوباما کی سربراہی میں وزیر خارجہ، دفاع اور انٹیلی جنس چیفس کا ہنگامی اجلاس ہوا، باقی سب کچھ تو فوراً ہی طے ہو گیا لیکن اس پر کافی دیر بات چیت ہوتی رہی، بہت سوال جواب ہوئے کہ بیت اللہ محسود کو کس طرح ایسے مارا جائے کہ سویلین نہ مریں، آخر کار اس ڈرون میزائل کا انتخاب ہواجو ٹارگٹ کے علاوہ اِردگرد کم سے کم تباہی پھیلانے والا اور حملہ اس اینگل سے کیا گیا کہ بیت اللہ محسود اور اس کی بیوی کے علاوہ کوئی ہلاکت نہ ہوئی‘‘۔ اب آئیے ساہیوال ظلم پر، جو بربریت ہوئی، وہ سب کے سامنے، سی ٹی ڈی اہلکاروں کی حیوانگی، پنجاب کے بڑوں کا شرمناک ردِعمل بھی سب کے سامنے، بلاشبہ ایسا سانحہ، حادثہ کہیں بھی ہو سکتا ہے مگر اس طرح کا حکومتی ردِعمل، سنا نہ دیکھا، حکومت نے دیدہ دلیری سے جھوٹ بولے، گاڑی میں اغوا کار تھے، تین بچے بازیاب کرا لئے گئے، جھوٹ! دہشت گردوں سے مقابلہ ہوا، 4دہشت گرد مارے گئے، جھوٹ! پہلا فائر گاڑی سے ہوا، جھوٹ! گاڑی سے گولہ بارود، خود کش جیکٹس، اسلحہ نکلا، جھوٹ! گاڑی کے شیشے کالے تھے، خلیل خاندان نظر ہی نہ آیا، جھوٹ! ذیشان کا تعلق گوجرانوالہ میں خود کو اڑا لینے والے کاشف کاشی اور عبدالرحمٰن سے، جھوٹ! سی ٹی ڈی کی ایف آر، جھوٹ! مقتولین کے لواحقین کی ایف آئی آر، جھوٹ! اور تو اور آئی جی پنجاب کے دفتر سے جاری ہونے والی پریس ریلیز جھوٹ کہ دہشت گرد گاڑی اور موٹر سائیکلوں پر سوار تھے، پولیس نے پیچھا کیا، فائرنگ کا تبادلہ ہوا اور اپنی فائرنگ سے گاڑی میں موجود 4دہشت گرد مارے گئے جبکہ موٹر سائیکلوں پر سوار دہشت گرد فرار ہو گئے۔چلو! مان لیا ذیشان جاوید داعش کیلئے کام کر رہا تھا، اس کا سال بھر سے پیچھا بھی کیا جا رہا تھا، یہ بھی مان لیا کہ 12سالہ عمیر کا یہ کہنا غلط ’’ابو نے کہا ہمیں مت مارو، پیسے لے لو، معاف کر دو‘‘، بس سے بنائی وہ ویڈیو بھی جعلی، جس میں دیکھا جا سکے کہ پہلے کار کو ٹکر ماری گئی، پھر بچوں کو نکال کر سیدھی فائرنگ کی گئی، اور وہ ویڈیو بھی نقلی، جس میں 4لوگوں کو قتل کرنے کے بعد پولیس بچے اور سوٹ کیس لے جا رہی۔ فرض کر لیں یہ سب جھوٹ پھر بھی کیا تربیت یافتہ پولیس ایسے آپریشن کرتی ہے؟ کیا گاڑی روک کر گھیرا ڈالنا، وارننگ دینا، ہاتھ اوپر کرکے باہر آنے کا نہیں کہنا چاہئے تھا؟ کیا ٹارگٹڈ آپریشن ایسے ہوتا ہے؟ کیا ریاست اتنی آسانی سے بندے مار دیتی ہے؟ کیا کم ازکم ایک کوشش نہیں ہونا چاہئے تھی مبینہ دہشت گرد کو زندہ پکڑنے کیلئے، پھرجس دہشت گرد کا سال بھر سے پیچھا کیا جا رہا، جو دہشت گردوں، داعش کا سہولت کار، اسے تو زندہ پکڑنا چاہئے تھا تاکہ معلومات ملتیں، دہشت گردی کے نیٹ ورک کا پتا چلتا، اسے یوں مارنا تھا تو سال بھر پیچھا کیوں کیا گیا؟پھر گاڑی میں دہشت گرد تھے تو انہوں نے مزاحمت کیوں نہ کی، پولیس لاشیں اور بچوں کو چھوڑ کر فرار کیوں ہو گئی، گاڑی سے ملنے والا اسلحہ اور خود کش جیکٹس اب تک کیوں منظر عام پر نہ لائی گئیں؟ گاڑی میں خود کش جیکٹس تھیں تو گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کے باوجود کیوں کوئی دھماکہ نہ ہوا؟ گاڑی میں بارودی مواد تھا تو سی ٹی ڈی نے کیوں بم ڈسپوزل اسکواڈ کو نہ بلایا؟ واقعہ کے بعد کیوں فرانزک ٹیم نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے نہ کئے؟ آپریشن کا کرائم سین کیوں محفوظ نہ کیا گیا؟ کیا کسی ریڈ بک میں خلیل، اس کی بیوی، بیٹی اور ذیشان کے نام بطور مشتبہ یا دہشت گرد درج تھے؟ کیا ذیشان کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج ہوئی؟ ایف آئی آر میں 16اہلکار نامزد، گرفتار 6 کیوں؟ اتنی چھوٹی سی گاڑی جس میں پہلے ہی 7لوگ بیٹھے ہوں، اس میں خود کش جیکٹیں، اسلحہ، بارود کیسے، کہاں تھا؟ اور یہ کہانی کہ ذیشان کو گھر میں اس لئے نہیں پکڑا گیا کہ کہیں وہ اپنے گھر میں پڑا منوں بارود پھاڑ نہ دے، شہری علاقے میں تباہی نہ ہو، اس لئے اس کے لاہور سے نکلنے کا انتظار کیا گیا، اب تو ذیشان جاوید مارا جا چکا، کم ازکم اب ہی اس کے گھر میں پڑا بارود دکھا دیا جائے،یقین جانئے، یہ تو میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا نے بھانڈا پھوڑ دیا، ورنہ پنجاب کے بڑوں نے مل کر ثابت کر دینا تھا کہ یہ اغوا کار بھی، دہشت گرد بھی، بلکہ ہو سکتا ہے کہ آپریشن کے بعد سی ٹی ڈی اہلکاروں کو سرٹیفکیٹ، نقد انعام ملتے، تعریفیں ہوتیں اور یہ ہمارے ہیرو ہوتے۔ لیکن ابھی بات ختم نہیں ہوئی، ابھی کئی اور کہانیاں مارکیٹ میں پھینکی جائیں گی، ایک ہماری یادداشتیں کمزور اوپر سے یہ کنفیوژن بھری داستانیں، چند دنوں بعد نہ جھوٹ سچ کا فرق رہ جائے گا اور نہ کسی کو اس معاملے میں کوئی دلچسپی، ویسے بھی جہاں ساہیوال جیسے ظلم روز ہو رہے ہوں، جہاں آئے روز پولیس مقابلے، بندوں کو پھڑکایا جا رہا ہو، وہاں کوئی بھی سانحہ کچھ عرصہ بعد سانحۂ ماڈل ٹاؤن کی طرح تحریروں، تقریروں، بیانوں تک ہی محدود ہو کر رہ جاتا ہے اور ہاں تبدیلی سرکار کے چند وزرا کو یہ فرماتے سنا ’’پنجاب پولیس شہباز شریف کی، اسے بدمعاش بنا گئے خادم اعلیٰ‘‘ مان لیا، سب خرابیوں کے ذمہ دار شہباز شریف، مگر ساڑھے 5ماہ ہو گئے آپ کو آئے ہوئے، ان ساڑھے 5مہینوں میں کوئی ایک کوشش بدمعاش پولیس کو شریف بنانے کی؟ کوئی ایک سرکلر، آرڈر یا زبانی کلامی، کاغذائی کارروائی؟ آپ نے تو پنجاب پولیس کو خیبر پختونخوا پولیس جیسا کرنا تھا، پنجاب پولیس سے گلو بٹوں کو نکالنا تھا، کیوں کچھ نہ کیا، باقی چھوڑیں ناصر درانی مستعفی ہوئے تو آپ نے ایک کوشش کی اسے منانے کی، واپس لانے کی، وہ تو تبدیلی فلم کا پوسٹر بوائے تھا، اِدھر ناصر درانی مستعفی ہوئے، اُدھر آپ نے اسے بھلا دیا، کم از کم جاتے وقت انہیں ایک کپ چائے ہی پلا دیتے۔ بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بتانا صرف یہ تھاکہ ایک طرف امریکہ ہزاروں میل دور بیٹھ کر اپنے دشمن کو مارتے ہوئے ایسے پلاننگ کرے کہ بے گناہ نہ مارے جائیں، دوسری طرف اپنا حال یہ کہ پولیس رکاوٹیں ہٹانے جائے اور بندے مار دے، لو گ سڑکوں پر احتجاج کیلئے نکلیں، سیدھی گولیاں مار دی جائیں اور ایک مبینہ دہشت گرد کی خاطر 3بے گناہ بھون دیئے جائیں