تحریر : پروفیسر رفعت مظہر
غیرت کے نام پر قتل انتہائی قبیح فعل ہے جِس کی دین ِ اسلام ہرگز اجازت نہیںدیتا ۔اگرکوئی مردیا عورت کسی ایسے غیراخلاقی فعل کامرتکب پایابھی جائے توپھر بھی کسی عام انسان کواُسے سزادینے کاکوئی اختیارنہیں ۔دینِ مبیںمیں اِس کے لیے باقاعدہ تعزیرات مقررہیں اورپاکستانی قوانین میںبھی ۔جرم ثابت ہونے پر سزاکا اختیاربھی صرف حکومتِ وقت کوحاصل ہے کسی عامی کونہیں ۔اگرہر شخص یہ اختیاراپنے ہاتھ میںلے لے توپھر صرف انارکی ہی پھیلے گی۔ پاکستان ہی نہیں ،پوری دنیامیں اِس قسم کے واتعات ہوتے رہتے ہیںاورایسا ہوناکوئی اچنبھے کی بات نہیںکہ رحمانی اورشیطانی قوتوںکا تصادم ازل سے جاری ہے اوراَبد تک جاری رہے گا۔
پڑوسی بھارت ہی کولے لیجیے ،اُسے تودنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کااعزاز حاصل ہے اور”سیکولر” ہونے پرفخربھی ۔وہاںدَلتوں ،شودروں، مسلمانوں ،سکھوںاور عیسائیوںکے ساتھ انتہاپسند ہندوجوسلوک کررہے ہیں ،وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ ہندوؤں کے غیرانسانی رویوں پربہت کچھ لکھاجا چکااور لکھاجا سکتاہے لیکن آج ہم صرف عورتوںکے ساتھ غیرانسانی سلوک پربات کریںگے ۔ کیایہ غلط ہے کہ آج بھی بھارت کے دوردراز دیہاتوںمیں ”سَتی” جیسی رسم پائی جاتی ہیںجس میں شوہرکے مرنے پراُس کی بیوی اُسی کے ساتھ ہی زندہ جلادی جاتی ہے ۔کیا اِس سے زیادہ وحشیانہ فعل کوئی ہوسکتا ہے؟۔
سوال یہ ہے کہ اگربھارت کایہ چہرہ دنیاکے سامنے لانے کے لیے ایسی کوئی ڈاکومنٹری بنائی جائے جیسی شرمین عبید چُنائے نے ”دی گرل ان دی ریور” اور ”سیونگ فیس” کے نام سے بنائی توکیا ڈاکومنٹری کے خالق کویکے بعد دیگرے 2 آسکرایوارڈ مِل سکتے ہیں؟۔ اگرنہیں توپھر پاکستان سے ایسی محبت کے سوتے کہاںسے پھوٹ پڑے کہ پاکستان کی بیٹی کو یکے بعددیگرے دو ،دو ا یوارڈ مِل گئے؟۔
بھئی ! ”کچھ توہے جس کی پردہ داری ہے”۔ پہلے ملالہ یوسف زئی کوآسکرسمیت دنیاجہان کے اتنے ایوارڈز سے نوازاگیا کہ اُس کانام گینزبُک آف ورلڈ ریکارڈمیں آناچاہیے اوراب شرمین عبید چُنائے ۔۔۔۔۔ کڑواسچ تویہی ہے کہ وہ ملالہ یوسف زئی ہو یاشرمین عبید چُنائے ، جوبھی پاکستان کابھیانک اوربَدتَر چہرہ سامنے لائے گا ،اہلِ مغرب اُسے پلکوںپہ سجالیں گے کیونکہ یہی تووہ راہ ہے جس پرچل کر اسلام اورپاکستان کوبدنام کیاجا سکتاہے۔ شرمین عبید چُنائے نے چار سال پہلے ”سیونگ فیس” کے نام سے ایک ڈاکومنٹری بنائی اوراُسے آسکر ایوارڈ کاحقدار ٹھہرایاگیا ۔اِس ڈاکومنٹڑی کاموضوع خواتین کے چہروںپر تیزاب پھینک کراُنہیں نشانِ عبرت بناناتھا ۔اب چارسال بعد شرمین نے ایک بارپھر ”دی گرل اِن دی ریور” کے نام سے دستاویزی فلم بنائی جس کاموضوع ”غیرت کے نام پرقتل” ہے۔
یہ ایک 18 / 19سالہ لڑکی کی کہانی ہے جسے اُس کے رشتے داروںنے اپنے تئیں غیرت کے نام پرقتل کرنے کے بعدمُردہ سمجھ کر دریامیں پھینک دیامگر وہ زندہ بچ گئی ۔اُس لڑکی نے ہسپتال کے ڈاکٹروں اورپولیس کے ساتھ مِل کراپنا مقدمہ لڑامگر پھردباؤ میںآکر حملہ آوروںکو معاف کردیا ۔شرمین عبیدکہتی ہے ”مجھے خوشی ہے کہ میری فلم کی وجہ سے پاکستان میںغیرت کے نام پرقتل کامسٔلہ اجاگرہوا ”۔ اطلاعاََ عرض ہے کہ غیرت کے نام پرقتل کامسٔلہ پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیامیں متواتر اجاگر ہوتارہا اورہورہا ہے ۔اسی طرح میڈیامیں لڑکیوںکے چہروںپر تیزاب پھینکنے اورگھریلو خواتین کوجلائے جانے کے واقعات کی بھی میڈیامیں بھرپور کوریج ہوتی رہی اورہو رہی ہے۔
اِس لیے محض دوسری مرتبہ آسکر ایوارڈجیت لینے کایہ مقصد ہرگز نہیںکہ صرف شرمین عبیدکی ڈاکومنٹری کی وجہ سے یہ مسائل اجاگر ہوئے ہیں اوراِس سے پہلے یاتو پاکستانی عوام اِس سے بے خبرتھے یاپھر اِن افعال کوقبیح نہ سمجھتے ہوئے اِن سے صرفِ نظرکر رہے تھے ۔ہاں ! یہ کہاجا سکتاہے کہ شرمین نے جن موضوعات پرڈاکومیٹریز بنائیں ،وہ مغرب کوبہت مرغوب تھیںکیونکہ اِن سے اقوامِ عالم میںپاکستان کابَدتَر امیج ابھرتاہے ۔ہم توعشروں سے یہ دیکھ رہے ہیںکہ اسلام اورپاکستان دشمن قوتیںمختلف حیلوں ،بہانوںسے پاکستان کی ایسی تصویرابھارنے کے لیے کوشاںہیں جس میںسوائے وحشت ودرندگی کے کچھ نظرنہ آئے اوراقوامِ عالم کے سامنے پاکستان کابھیانک تصور اُبھرے ۔ایساتاثر ابھارنے کے لیے دنیابھر میںایسی بیشمار لابیاںکام کررہی ہیںجن پراربوں ڈالرصرف کیے جارہے ہیں۔
جب پاکستان ہی کی کوئی بیٹی پاکستان کاایسارُخ پیش کرنے کی کوشش کرے گی توظاہرہے کہ اسلام اورپاکستان دشمن قوتوںکی آنکھوںکی چمک بھی بڑھے گی کیونکہ اِس طرح وہ اسلامی تشخص پرکاری ضرب لگاسکتے ہیں ۔اِس سے پہلے اہلِ مغرب نے مذہب کے پیروکاروں کو دہشت گردثابت کرنے میںکوئی کَس اٹھانہیںرکھی ۔اب یہ بات کوئی رازنہیں رہی کہ طالبان نامی دہشت گردجو اسلام کاچہرہ مسخ کرنے کی کوشش کررہے تھے ،اُن کوبھارت کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی اوراسلام مخالف قوتیں اِن دہشت گردوں کے ذریعے دینِ مبیںکو بدنام کرنے کے لیے کوشاں۔ اب ”سیونگ فیس” اور ”دی گرل اِن دی ریور” جیسی دستاویزی فلموںکو آسکرایوارڈ سے نوازکر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں قبیح رسومات اورروایات پرعمل کیاجا رہاہے۔
شرمین عبید نے ”دی گرل اِن دی ریور” میںیہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ زورآور کے سامنے پاکستانی حکمران ، قانون نافذ کرنے والے ادارے اورعدلیہ ، سب بے بَس ہیںکیونکہ اِس ڈاکومنٹری کی صبانامی ہیروئن دباؤ میںآکر حملہ آوروںکو معاف کردیتی ہے ،گویا وہ معاف تونہیں کرناچاہتی تھی لیکن زورآوروں کے دباؤمیں آکر معاف کردیا ۔عرض ہے کہ ایسے واقعات دنیابھر میںہوتے رہتے ہیںاور ہوتے رہیں گے لیکن ہمیںشاید اپنے آپ کو بدنام کرنے کاشوق ہی بہت ہے۔
شرمین عبید چنائے پاکستان کی بیٹی ہے اورہمیںاُس کی صلاحیتوں پرفخر۔ اُسے چاہیے کہ وہ ارضِ کشمیرکی اُن بے کَس وبے بَس بیٹیوںپربھی دستاویزی فلم بنائے جو بھارتی فوج کی وحشیانہ ہوسناکی کا شکار ہورہی ہیں ،جن کی عصمتیں تارتارکی جارہی ہیں اورجو زندہ لاشوںمیں ڈھل چکی ہیں۔ اُسے چاہیے کہ عافیہ صدیقی پربھی ڈاکومنٹری بنائے جودنیاکے سب سے بڑے دہشت گرد یعنی امریکہ کے پنجۂ استبدادمیں سِسک رہی ہے ۔جوبے گناہ ہے لیکن اُس کی بے گناہی کی گواہی دینے والا اہلِ مغرب میںسے کوئی ہے نہ عالمِ اسلام میں سے۔اگرشرمین میںہمت ہے توارضِ فلسطین کے اُن معصوم بچوں ،بوڑھوں، عورتوں اورجوانوں پرڈاکومنٹری بنائے جنہیںصیہونیوںکے ستم سہتے عشرے بیت چکے ۔اگروہ ایساکر سکی توہم اُسے یقین دلاتے ہیںکہ ارضِ وطن کابچہ بچہ اُس کی عظمتوںکو سلام کرے گالیکن وہ یہ بھول جائے کہ اُسے آسکرایوارڈ بھی ملے گا۔
تحریر : پروفیسر رفعت مظہر