تحریر : عقیل احمد خان لودھی
شرمین عبید چنائے۔۔۔ آسکر ایوارڈ ان دنوں موضوع بحث ہے ہر چینل پر صبح دوپہر شام میڈیا کی ہیڈ لائنز میں ایک عورت مشرقی روایات سے ہٹ کر سینکڑوں غیر مسلموں ادھ ننگے لباس والی عورتوں ،ہوس کے پجاریوں ،حلال حرام کی تمیز سے عاری انسان نما مجسموںکے درمیان اسٹیج پر آتی اور لہرا لہرا کر آسکر ایوارڈ وصول کرتی ہے اور ہمارے پیارے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اسلامی حکمران بھی اس پر عش عش کرتے اور تعریف کرتے نہیں تھکتے جو اس بات کی بھرپور غمازی ہے کہ اس ملک میں اگر کوئی عزت کا حقدار ہے تو اسے غیروں سے سند یافتہ ہونا ضروری ہے جو اپنے دیس کے کالے کرتوتوں کی تشہیر کئے بغیر ممکن نہیں ہمارا ماضی بھی اس بات کا گواہ ہے کہ جس کسی نے ملک کے کالے رسوم ورواج کو بڑھا چڑھا کر دنیا کے سامنے پیش کیا پاکستا ن کی ہتک کی اسے سر آنکھوں پر بٹھایا گیا کسی کو امن کے سفیر کا خطاب ملا تو کسی کو جرات کی علامت کا ۔۔۔ حالانکہ ملک کو آزاد ہوئے 69برس گزر چکے ہیں۔
ملک کا اپنا آئین قانون ہے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر شخص کی جان ومال کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ملکی قوانین کے مطابق مجرموں کو سزا دلوائے۔۔۔۔ مگر بدقسمتی سے ملک میں اتنے طویل عرصہ میں ریاست کہیں نظر نہیں آئی آپ کہہ سکتے ہیں چند مقتدر شخصیات ، سیاسی وڈیرے ،بگڑے ہوئے رئیس زادے یا ان کی اولادیں اور خاندان ہی اقتدار اور حکومتوں کا حصہ بنتے رہے اور بن رہے ہیں ملک میں کیا کچھ نہیں ہورہا عزتوں کی نیلامیوں سے لیکر غیرت کے نام پر قتل ،کاروکاری، وٹہ سٹہ ، جھوٹ ،ملاوٹ ،کرپشن اور دیگر ایسی ہی سماجی برائیوں کے پروان چڑھانے میں ایلیٹ طبقہ کا زیادہ ہاتھ ہے عام آدمی تو معمولی جرم کرے تو اس کیلئے قانون اپنی طاقت سے بھی زیادہ طاقتور ہے۔
عام آدمی پر تو کوئی الزام نہ بھی ہو تو قانون کے رکھوالے اسے اپنی اوقات میں رکھنے کیلئے جب چاہے جیسے چاہے درگت بنا سکتے ہیں جنہیں ایسے اقدامات پر کوئی پوچھتا بھی نہیںاصل معاملہ تو بااثر افراد کے ہاتھوں ہوتا ہے جنہیں چھڑوانے کیلئے پنچایتیں اور حکومتیں حرکت میں آجاتی ہیں عدالتیں کہیں کام نہیں کرتیں جرگوں میں فیصلہ ہوتا ہے قتل کرو دیت دو چھوٹ جائو۔ باقی چھوٹے موٹے جرائم میں جو کچھ قلیل تعداد میں غریب آدمی ملوث بھی ہوں تو وہ زیادہ دیر قانون کی پہنچ سے باہر نہیں رہتے انہیں قابو کرنے کیلئے ریاستی انتظامیہ بالخصوص ہماری قابل پولیس ملزم کے بے گناہ خاندان کی زندگیاں جہنم بنا دیتی ہے جس سے غریب ملزم اپنے خاندان کو بچانے کیلئے خود ہی گرفتاری دینے پر مجبور ہوجاتا ہے ورنہ جب تک ملزم ہاتھ نہیں آتا تھانے کچہریوں میں اس کے ورثاء ماں باپ بہن بھائیوں کیساتھ پولیس وٹے سٹے سے زیادہ معاملہ کرتی ہے۔
بات تو نظام ٹھیک کرنے کی ہے قوانین تو ملک میں پہلے سے ہی موجود ہیں مگر ریاستی ادارے ان قوانین کے نفاذ میں پس وپیش اور نظریہ ضرورت کے تحت کام لیتے قانون طاقتور کی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنارہتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں لاقانونیت کا دور دورہ ہے اگر ادارے اپنی حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کریں تو غیرت کے نام پر قتل کرنے کی نوبت ہی نہ آئے باقی رہا معاملہ غریب آدمی کا تو وطن عزیز میں غریب آدمی کیلئے عزت سے جینا ایک خواب ہے آسکر ایوارڈ پر تالیاں بجانے والے پاکستانی حکمرانوں میں سے ہی کوئی ملک کے کسی ادارے میں بحثیت ایک غریب اور عام آدمی کے جا کر دیکھ لے زیادہ دور یا کسی بڑے ڈیپارٹمنٹ اور محکمہ میں نہ جائے صرف کسی سرکاری ہسپتال میںہی جا کر کسی روز دیکھ لے اسے خود معلوم ہوجائے گا کہ پاکستان میں غریب کیلئے غیرت نام کی کوئی اہمیت باقی نہیں۔
یہاں تو کب سے ایک مدت سے بالخصوص جب سے خدمت والی جمہوریت نے یہاں بسیرا کیا ہے غریب آدمی بے غیرتوں والی زندگی گزاررہا ہے اس کی غیرت تو کب کی مرچکی اور ویسے بھی جہاں بھوک ننگ کا راج ہووہاں غیرت کس چیز کانام ہے ،غریب کی جانے بلا۔۔۔آسکر ایوارڈپر واہ واہ کرنے والوںکو اس بات پر شرم آنی چاہیئے کہ جن مسائل کی نشاندہی پرملک کو بدنام کر کے نام کمایا جارہا ہے ان پر قابو پانا انہی کا کام ہے۔ طویل عرصہ سے جمہوریت کے نام پر حکمرانی کرنے والے وہی چند ایک خاندان ہیں جو باری باری کے فارمولوں پر تیس سالوں سے حکومت کررہے ہیں مگرحالات بہتر نہ ہوئے۔
ایسی اصلاحات نہ لائی گیں جن سے قانون کا احترام کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوتا۔۔۔اور کیا ہے کہ اپنی ہی ناکامیوں پر داد وصولیاں اور قوم کا سر فخر سے بلند کرنے کا واویلا کیا جارہا ہے ۔حکمرانوں کیساتھ ساتھ ملک کا ایک روشن خیال مخصوص طبقہ بھی اکثریتی عوام کیساتھ ناانصافیوں اور محرومیوں کی موجود گی میں تالیاں بجا کر مذاق اڑانے اور اخلاقیات کی دھجیاں اڑانے میں مصروف ہے ۔ اگر ان ایوارڈز کی بدولت آج تک ملکی حالات میں کوئی بہتری آئی ہے تو ثابت کی جائے اپنے ملک کی اپنی اقدار اورمذہب کی جگ ہنسائی کرواکے غیروں کی تسکین کا باعث بننے والوں کو یہ یا د کیوں نہیں رہتا کہ جس ملک نے انہیں عزت دی ہے شہرت اور مرتبہ دیا ہے وہ اسلام کے نام پر لاالہ الااللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا کیا۔
کبھی ہمارے مسلم حکمرانوں نے اس جانب کبھی توجہ دی کہ دین کی اصل تعلیمات کو فروغ دیا جائے کہ جس سے اﷲ اور اس کا رسول راضی ہوں، لوگوں میں شعور آئے اور وہ فرقی گروہوں میں بٹ کر اپنی صلاحیتیں ضائع کرنے کی بجائے معاشرے کی بہتری کا فریضہ سرانجام دے سکیں، نہیں ۔۔۔ کیوں نہیں؟ اس لئے کہ ان کے بیرونی دنیاوی آقا ایسے اقدامات سے ناراض ہوں گے اور ان کی فنڈنگ بند ہوجائے گی۔ ان حکمرانوں کا یہ آسکر ایوارڈ چلن آگے چل کر ملک میں آسکر ایوارڈ یافتہ مولوی نام نہاد علماء کرام کو امپورٹ کرنے کی طرف گامزن ہے کیونکہ آسکر ایوارڈ کی وصولیوں میں اب مسلمانوں کی بیٹیاں بے پردہ ،غیروں، اسلام دشمنوں کے سامنے آنے سے نہیں کتراتیں، ان سے ملاقاتیں کرتیں ایوارڈ وصول کرتی ہیں اور ہمارے لوگوں میں ایسے رحجانات اب جگہ بنانے لگے ہیں۔
بڑی تعداد اپنا سب کچھ بھلا کر تھوڑی بہت اخلاقی جرات کرنے والوں کو زبردست ہدف تنقید بناتی ہیں۔ایسے روشن خیالوں اور ملک کے خدمتگار حکمرانوں کو یہ آسکر ایوارڈ مبارک ہوں اﷲ کرے تمہارا یہ آسکر تمہیں روز محشرپل صراط بھی پار کروادے ۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ آنے والا کل آسکر ایوارڈ یافتہ امپورٹڈعلماء کرام کا ہوگا جو ملک کی درسگاہوں، مدارس میں ایسی تعلیم سے روشناس کروائیں گے کہ ہمارے لئے بھی سب کچھ حلال ہوجائے گا ویسے بھی یہ کام اب تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے جس کی مثال ہمارے ٹی وی چینلز پر آنے والے کمرشل اشتہارات اور مختلف ٹاک شوز ہیں۔
جہاںکچھ خاندانوں کی دیدہ دلیر عورتیں ننگے سر، قابل اعتراض ملبوسات میں دینی معاملات /حساس موضوعات پر علماء کرام کیساتھ بحث کرتی اور مختلف دینی معاملات پر الجھتی نظر آتی ہیں۔ویسے ان سب کو بھی آسکر کی ہی ضرورت ہے دعا ہے کہ جن کی خواہش آسکر کی ہے انہیں آسکر ملے اور پاکستانی قوم/ مسلمانوں کو اﷲ تعالی ٰ اور اس کے حبیب ۖ کی رضا مل جائے اور یہ ملک ہر طرح کی جہالت، غربت ،بدامنی ،پریشانیوں تکالیفوں،دشمنوں سے نجات حاصل کرکے ترقی کی راہوں پر گامزن ہو! آمین۔
تحریر : عقیل احمد خان لودھی
0334-4499404